ہم تو نالے بھی کیا کرتے ہیں آہوں کے سوا
آپ کے
پاس ہیں کیا تیز نگاہوں کے سوا
معذرت
چاہیے کیا جرمِ وفا کی اُس سے
کہ گنہ
عذر بھی ہے اور گناہوں کے سوا
میں
نہیں کاتبِ اعمال کا قائل یا رب
اور بھی
کوئی ہے ان دونوں گواہوں کے سوا
حضرت
خضر کر دیں دشت نوردی بیکار
ہم تو
چلتے ہی نہیں عشق کی راہوں کے سوا
خانۂ
عشق ہے منزل انہیں مہمانوں کی
اور اس
گھر میں دھرا کیا ہے تباہوں کے سوا
اُن کے
آنے کی خوشی ایسی ہوئی محفل میں
پگڑیاں
بھی تو اُچھلتی تھیں کلاہوں کے سوا
وہ کریں
ملک پہ قبضہ یہ کریں دل تسخیر
ان
حسینوں کی حکومت تو ہے شاہوں کے سوا
ظلمت
بخت مری تیر گئی زلف تری
کوئی
بڑھ کر نہیں اِن دونوں سیاہوں کے سوا
نہ سنے
داور محشر تو کروں کیا اے داغ
سب سے
اظہار ہوئے میرے گواہوں کے سوا
No comments:
Post a Comment