🌹سلطان محمود بن سبكتگین کے عظیم کردار کی ایک جھلک 🌹
اور
انصاف اپنی معراج کو پھنچ گیا
علامہ
حافظ ابن کثیر رحمة اللٰہ علیہ اپنی مایہ ناز تصنیف"البدایہ
والنھایہ"میں رقم فرماتے ھیں کہ سلطان محمودبن سبکتگین کی خدمت میں ایک شخص
حاضر ھوا،اس نے جان کی امان پا کر عرض کیا کہ آپ کا بھانجا میری بیوی پر عاشق
ھے،جب جی چاھتا ھے وہ زبردستی میرے گھر پر آ جاتا ھے،اس نے میری بیوی سے ناجائز
تعلقات قائم کر رکھے ھیں،اس کے خوف کی وجہ سے کوئی حاکم اس کے خلاف کارروائی کرنے
کے لئے تیار نھیں،میں نے ھرطرف کوشش کی، امراء سے ملا،وزراء سے شکایت کی مگر میری
تمام کوششیں ناکام رھیں،اس کے شر سےسب پناہ مانگتے ھیں،اس لئے میں آپ ھی سے انصاف
کا طالب ھوں-
سلطان
محمود سبکتگین نے یہ شرمناک واقعہ سنا تو اس کا خون کھولنے لگا،
اس نے شکایت کرنے والے سے کہا کہ آئندہ جونھی میرا
بھانجا تمھارے گھر آئے،فوراً مجھے اطلاع دینا،اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کرنا رات
ھے یا دن،پھر سلطان نے اپنے سکریٹری کو طلب کیااور حکم جاری کیاکہ تمام سیکورٹی
والوں کو اطلاع کردو کہ جب بھی یہ فریادی آئے، اسے فوراً میرے پاس پھنچا دیا جائے-
دو
دن گزرے،رات کا کچھ حصہ بیت چکا تھا کہ وہ شخص سلطان محمود کے محل آ پھنچا، سلطان
سو رھا تھا،اسے جگا کر بتایا گیاکہ فلاں شخص آپ سے ملاقات کے لئے حاضر ھوا
ھے،سلطان فوراً اٹھا اور فریادی کے ساتھ اس کے گھر روانہ ھو گیا-
گھر
میں داخل ھوا تو اس نے اپنے بھانجے اور عورت کو ایک ھی بستر پر پایا،کمرے میں شمع
روشن تھی ،سلطان نے فریادی سے کہا کہ تم پیچھے ھٹ جاؤ، اس کے بعد وہ آگے بڑھااور
شمع گل کر دی، پھر وہ بجلی کی طرح اپنے بھانجے کی طرف لپکا اور پلک جھپکتے ھی اس
کی گردن تن سے جدا کر دی-
اب
سلطان نے آواز دی:جلدی سے پانی لاؤ،وہ شخص پانی لے آیا تو سلطان نے بے تابی سے
پانی پیا-
اس
شخص نے سلطان کو قسم دے کر پوچھا کہ آپ نے آتے ھی شمع کیوں بجھائی؟سلطان نے
کہا:تیرا ناس ھو!یہ میرا سگا بھانجا تھا،میں اسے ذبح ھوتے نھیں دیکھ سکتا تھا،میں
نے سوچا ھو سکتا ھے اس کی شکل دیکھ کر مجھے رحم آجائے اور میں تقاضائے عدل پورا نہ
کر سکوں-
اس
شخص نے اگلا سوال کیا: آپ نے اسے ذبح کرتے ھی پانی کیوں مانگا؟سلطان نے جواب
دیا:جب تم نے مجھے میرے بھانجے کے بارے میں اطلاع دی تھی، میں نے قسم کھائی تھی کہ
جب تک تمھاری مدد نہ کر لوں، مجھ پر کھانا پینا حرام ھے،میں اسی وقت سے پیاسا
تھا،اس لئے فوراً پانی مانگا،اس شخص نے عادل سلطان محمود کو خوب دعائیں دیں،اور اس
واقعے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ھوئی!
(البدايه والنهايه ج/15، ص/634)
یہ
ھے ھمارے نیک حکمرانوں کے کردار کی ایک جھلک، انھوں نے حق وانصاف کے معاملے میں
اپنے اور بیگانے میں کبھی کوئی تمیز روا نھیں رکھی اور عدل وانصاف کا ترازو ھمیشہ
سیدھا رکھا!
اس واقعہ سے دور حاضر کے حکمرانوں کو عبرت ونصیحت
حاصل کرنی چاہئیے ۔
No comments:
Post a Comment