سورۃ
النجم
مکی سورت ہے۔
باسٹھ آیتوںاور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ سورت کی ابتداء میں قسمیںکھا کر اللہ نے
سفر معراج کی تصدیق کرتے ہوئے ’’معراج سماوی‘‘ کے بعض حقائق
خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے عرش معلیٰ پر ملاقات اور سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتہ سے
بالمشافہہ گفتگو کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر شرک کی تردید کرتے ہوئے باطل خدائوںکی مذمت
کے ساتھ بتایا ہے کہ اللہ کے علاوہ بتوںکی عبادت ہو یا معزز فرشتوںکی وہ ہر حال
میں باطل اور قابلِ مواخذہ ہے۔ پھر انسانی زندگی کے ضابطہ کو بیان کیا ہے کہ انسان
کی محنت اور کوشش ہی اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔
عمل سے زندگی
بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
آخر میں
نہایت اختصار کے ساتھ امم ماضیہ کا تذکرہ کرکے قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ بیان
کردیا کہ قوموںکی تباہی میں وسائل سے محرومی یا معیشت کی تنگی نہیں بلکہ ایمان سے
محرومی، عملی بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط سب سے بڑے عوامل ہوا کرتے ہیں۔
سورۃ
القمر
مکی سورت ہے۔
پچپن آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس سورت کا مرکزی
مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ معلوم ہوتا
ہے۔ سورت کی ابتداء حضور علیہ السلام کے ’’چاند کو دو
ٹکڑے کرنے‘‘ کے معجزہ سے کی گئی ہے، جسے قرآن کریم ’’شق القمر‘‘ کہتا ہے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ جادو کا اثر
آسمان پر نہیں ہوتا، لہٰذا اگر آپ چاند دو ٹکڑے کردیں تو ہم آپ کو ’’جادو گر‘‘ قرار دینے کے بجائے نبی تسلیم کرلیں گے۔ مگر وہ ہٹ
دھرم اس معجزہ کو دیکھ کر بھی کہنے لگے کہ ’’محمد کا جادو
تو آسمان پر بھی چل گیا‘‘ پھر قیامت کے ہولناک دن کی یاد دلا کر مشرکین کو
بتایا گیا کہ اس دن تمہاری نگاہیں جھکی کی جھکی رہیں گی اور تمہاری زبانیں اس دن
کی شدت کا برملا اعتراف کریں گی۔ پھر مشرکین مکہ کو حق کے انکار کے بدترین نتائج پر
متنبہ کرنے کے لئے امم ماضیہ کا تذکرہ شروع کردیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی ’’ہزار سالہ جدو جہد‘‘ قوم کی گستاخی اور تکذیب پر بارگاہ الٰہی میں
عاجزانہ دعاء اور مدد کی درخواست جو کسی بھی دور کے پریشان حال انسان کی مشکلات کے
حل کے لئے مقبول دعاء کا درجہ رکھتی ہے ’’رَبِّ اِنِّی٘ مَغ٘لُو٘بٌ
فَاَن٘تَصِر٘‘‘ اور اس کے نتیجہ میں اہل ایمان کی ’’کشتی کے ذریعے‘‘ نجات اور آسمان سے برسنے اور زمین سے ابلنے والے
پانی کے سیلاب میں قوم کی غرقابی اور تباہی کو بیان کیا۔ اس کے بعد عادو ثمود و
قوم لوط و فرعون جو اپنے اپنے دور میں طاقت و قوت، ہنر اور ٹیکنالوجی، مستحکم
معیشت اور مضبوط سیاسی نظام کے نمائندے تھے۔ ان کی تکذیب و نافرمانی پر ہلاکت و
تباہی کی مثال پیش کرکے کافروں کو وعید اور اہل ایمان کو بشارت اور تسلی دی کہ ’’دعوت حق‘‘ کے مخالفین کتنے با اثر اور مستحکم کیوں نہ ہوں
اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا مشرکین مکہ پر بھی ایک دن آنے والا ہے جب یہ
شکست کھا کر میدان (بدر) سے راہِ فرار اختیار کرنے پر ہی عافیت سمجھیں گے۔ پھر
مجرمین کے قیامت کے دن بدترین انجام کے ساتھ بتایا کہ متقی باغات اور نہروں کے
خوشنما منظر میں اپنے رب کے ہاں باعزت مقام اور بہترین انجام سے سرفراز ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment