اے گل نو دمیدہ کے مانند
ہے تو کس آفریدہ کے مانند
ہم امید وفا پہ تیری ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند
خاک کو میری سیر کر کے پھرا
وہ غزال رمیدہ کے مانند
سر اٹھاتے ہی ہو گئے پامال
سبزۂ نو دمیدہ کے مانند
نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو
نالہ تیغ کشیدہ کے مانند
ہم گرفتار حال ہیں اپنے
طائر پر بریدہ کے مانند
دل تڑپتا ہے اشک خونیں میں
صید در
خوں طپیدہ کے مانند
تجھ سے یوسف کو کیونکے نسبت دیں
کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندۂ زر خریدہ کے مانند
No comments:
Post a Comment