آدم شیر
لاہور کے شمال میں ایک پرانی بستی ہے جس کی ایک
تنگ اور بند گلی میں موجود ایک کمرے کے مکان میں بلو کرایہ پر رہا کرتی تھی۔
اس شہر کی تنگ گلیاں اندر سے بڑی کھلی ہوتی تھیں ۔
پہلے یہاں رہنے والوں کے دل بھی کھلے ہوا کرتے تھے۔ پھر کھلی گلیوں اور تنگ دلوں
کا زمانہ آ گیا لیکن تنگ گلیاں اور کھلے دل اب تک مل جاتے ہیں ۔ اکثریت کو یہ
گلیاں اب بھیڑ بکریوں کا باڑہ نظر آتی ہیں ۔ چند ان میں زندگی کا سمندر موج در موج
اچھلتا کودتا دیکھتے ہیں جو ساحل کو ڈبوتا آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ شہر اب
شہر نہیں رہا، انسانوں کا جنگل بن چکا ہے جہاں بچے زیادہ دیر بچے نہیں رہتے۔
بلو کے بچے بھی تیزی سے بڑے ہو رہے تھے۔ ایک چھ
سات سال کا بیٹا اور نو دس سال کی ایک ہی بیٹی تھی۔ وہ خود سارا دن گھر سے غائب
رہتی۔ بچی ہاتھ میں کٹورہ پکڑے ایک گھر جاتی۔ بچہ چنگیر پکڑے دوسرا دروازہ
کھٹکھٹاتا اور یوں ماں کی عدم موجودگی میں اپنے لئے خوراک مہیا کر لیتے۔
بلو کا اصلی نام پتا نہیں کیا تھا۔ سارے محلے میں
وہ بلو مشہور تھی حالانکہ اس کی آنکھیں بلوری نہ تھیں ۔ شریر بچے اسے بلی بھی
پکارتے لیکن پیٹھ پیچھے۔ ۔ ۔ اور بچوں کے باپ اسے پتا نہیں کیا کیا کہتے تھے مگر
جب وہ سامنے نہ ہوتی۔ ۔ ۔ عورتیں بھی کچھ نہ کچھ کہتی رہتی تھیں لیکن زیادہ تر
ایسا جو ایک کمرے کے مکان میں کرایہ پر رہنے والوں کے متعلق کہا جاتا ہے۔
بلو کی عمر پینتیس سے چالیس کے درمیان ہو گی۔ نین
نقش واجبی سے لگتے البتہ جغرافیہ صاف بتاتا تھا کہ کبھی بڑی غضب کی ہو گی۔ اب تو
اس کے بال ہمہ وقت الجھے الجھے اور مٹی سے اٹے رہتے جن میں وہ گندی اور گھسی ہوئی
انگلیوں سے خارش کرتی۔ وہ اکثر شام کے وقت اپنی دہلیز پر پائی جاتی۔ کپڑے اس کے
پھٹے تو نہ ہوتے لیکن کثرت استعمال سے گھسے ضرور ہوتے۔ بلو کے جسم میں ایسی کوئی
خاص بات نہیں رہی تھی جس کا ذکر ضروری ہو۔ بس وہ پیچھے سے تھوڑی نمایاں تھی۔ گھر
سے باہر قدم نکالتی تو پاؤں سے پہلے پیٹ نظر آتا جس کے بعد سینہ اور پھر منہ
دیکھنے کو ملتا۔
بلو زیادہ موٹی تھی نہ اس کا مرد کافی پتلا تھا۔
وہ اپنی بیوی سے چار پانچ سال چھوٹا ہی نظر آتا اور بلو اپنی عمر سے چار پانچ سال
بڑی دکھائی دیتی۔ اس کا چہرہ مالی اور سماجی حالات کا واضح عکاس تھا، اس تختی کی
طرح جس پر کسی بچے کی سیاہی سے لتھڑی انگلی دو جگہ پر لگ گئی ہو مگر بلو کے مرد کا
چہرہ اس بلیک بورڈ کی طرح چمکتا تھا جس پر تازہ تازہ سیاہ پینٹ کیا گیا ہو۔ وہ
استری کی ہوئی کلف لگی صاف ستھری شلوار قمیص پہنتا تھا۔
بلو کا مرد چھوٹی بس کا ڈرائیور مشہور تھا۔
موٹرسائیکل اس کے پاس تھی، جسے وہ چمکا کر اڈے پر جاتا۔ اس کے بعد بلو بھی گھر سے
چلی جاتی۔ پہلے وہ ایک کوٹھی میں برتن دھوتی جہاں اس کے ناخن تڑخ اور پوریں بے جان
ہو جاتی تھیں ۔ کپڑوں کی دھلائی بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ مالکن ہر بار داغ رہ جانے
کے لئے ڈانٹتی اور بلو کے جھاڑو پھیرتے ہوئے کئی بار کہتی۔
’’اندھی ہے تُو، نظر نہیں آتا۔ گندگی چھوڑتی جا
تی ہے۔ چل دوبارہ جھاڑو لگا۔ ‘‘ اور وہ چہرے پر پھیلتے ناگواری کے تاثرات پوری
ایمانداری سے چھپاتے ہوئے جھاڑو دوبارہ رگڑ رگڑ کر لگانا شروع کر دیتی۔
اس کے بعد وہ دوسری کوٹھی میں بھی یہی کچھ کرتی
اور شام کو اپنے گھر لوٹتی جو گھر نہیں تھا بلکہ مالک مکان کی لالچ نے اس ڈربے کو
کرائے کا مکان بنا دیا تھاجس میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ مرغی کی طرح سمٹی رہتی اور
اس کا مرد پھیلا رہتا۔ بلو کی زندگی ایسی ہی تھی۔
اب اس کی کوئی چیز دلچسپ نہیں رہی تھی سوائے اس کی
تیکھی زبان کے جو سب کو پسند تھی۔ اتوار کے دن وہ اکثر اپنے دروازے میں بیٹھی بیٹی
کے سر سے جوئیں نکالتی سامنے والی پڑوسن سے باتیں کرتی نظر آتی۔ جب وہ بولتی تو
کسی کو پتا نہ چلتا لیکن چلاتی تو سب ہمہ تن گوش ہوتے۔ پوری گلی کے مرد چسکے لیتے
اور عورتیں منہ میں انگلیاں لے لے کر اشارے کرتیں ۔ بڑے مزے دار لفظ استعمال کرتی
تھی۔ وہ ایسے اعضا کا ذکر بڑے کھلے ڈھلے انداز میں گلی میں کھڑے کھڑے کر دیتی جو
مرد صرف لڑائی کے دوران ایک دوسرے کے لئے کرتے ہیں ۔ اس کے منہ سے اوروں کو پڑتی
گالیاں سن کر دل باغ باغ ہو جاتا۔ اس کے بچے بھی سارا دن تھڑے پر بیٹھے ایک دوسرے
کو ویسی ہی مزے دار گالیوں سے نوازتے رہتے تھے۔
بلو لڑاکو نہیں تھی۔ وہ گھر رہتی تو کسی سے لڑتی!۔
وہ تو جاپانی روبوٹ کی طرح ایک کوٹھی سے دوسری میں جاتی اور واپس اپنے ڈربے میں
سونے کے لئے آ جاتی۔ اس کی جسمانی حالت اور بندے کے تیور بتاتے تھے کہ اب وہ صرف
سونے اور کھانا پکانے کے لئے ہی گھر آتی ہے۔ جب اس کی گالیاں سنائی دیتیں تو پتا
چلتا وہ گھر میں ہے اور کئی لوگ اپنے کواڑ کھولے بغیر کان کھڑے کر لیتے۔ گالیاں نکالنا
ایسا ہی ہے جیسے گٹر سے گندگی نکالنا جو پھنس جائے تو گلیاں بھر جاتی ہیں ۔ گلی
میں کوئی اور عورت بھی غلاظت نکال رہی ہوتی تو وہ سارا مردوں کے اندر چلا جاتا جو
ان سے ہوتا ہوا بچوں میں داخل ہو جاتا۔
گلی کی نکڑ پر ایک دن کسی سرکاری دفتر میں کلرکی
کرنے والے حمید کے دو چھوٹے لڑکے اپنے ماں باپ سے ملی غلاظت اس وقت نکالنے لگے جب
بلو شام کے وقت سارے دن کی تھکی ہاری چنگ چی کا کرایہ بچا کر اپنے قدموں پر گھر آ
رہی تھی۔
’’بلو ڈیڑھ سو۔ ۔ ۔ بلو ڈیڑھ سو۔ ۔ ۔
‘‘
بلو کے پاؤں وہیں رک گئے۔ اس نے کانوں کے راستے دل
کو راکھ کر دینے والا لاوا اگلنے سے خود کو روکا اور بچوں کو پیار سے سمجھانے لگی
لیکن بچے باز نہ آئے اور پھر وہی۔ ۔ ۔
’’بلو ڈیڑھ سو۔ ۔ ۔ بلو ڈیڑھ سو۔ ‘‘ اس نے غصیلے
انداز میں سمجھایا تو بچوں نے شور مچا دیا۔ ۔ ۔ ’’بلو دس روپے۔ ۔ ۔ بلو دس روپے۔
‘‘
بلو کے لاوے کے آگے لگے غربت کے بند میں چھید ہو
گیا اور وہ بچوں کے قد سے بڑی گالیاں دینے لگی جس پر کچھ لوگ دروازوں کی اوٹ میں
محظوظ ہونے لگے۔ حمید دروازے سے باہر آیا، اس کے پیچھے اس کی بیوی تھی جس کے بعد
ماں اور پھر اس کے سب بھائی باہر نکل آئے۔ وہ سارے بلو کو اس سے موٹی گالیاں دیتے
ہوئے پل پڑے۔ مار کٹائی میں اس کے بوسیدہ کپڑے بھی پھٹ گئے اور ایسی چوٹیں آئیں کہ
کسی کو دکھا نہ سکتی تھی۔
حمید اور اس کے گھر والوں کا پارا اترا تو بلو
اپنے جسم کو خود سہارا دیتی کھڑی ہوئی اور آپی اپنا آپ سہلاتی گلی والوں کی نظروں
سے نظریں ملائے بغیر خود کو خود میں چھپاتی ہوئی اپنے ڈربے میں پہنچ گئی۔ جب اس کا
گھر والا آیا تو دونوں تھانے گئے اور کارروائی کی درخواست دی جو چھوٹے منشی نے ٹال
مٹول کے بعد بڑی مشکل سے لکھی۔
دوسرے دن جب بلو اور اس کا گھر والا تھانے میں
داخل ہو رہے تھے تو حمید اپنی عورتوں اور کئی محلہ داروں کے ساتھ نکل رہا تھا۔ بلو
اپنے مرد کے ساتھ تھانیدار کے سامنے پیش ہوئی تو اس نے صاف صاف کہہ دیا۔
’’بلو جی !سارے محلے نے تمہارے خلاف گواہی دی ہے۔
صلح کر لو۔ ‘‘
بلو نے اپنی بپتا سنانے کی کوشش کی تو تھانیدار نے
جھاڑ پلاتے ہوئے کہا۔
’’صلح کر لو۔ یہی بہتر ہے۔ سب کہتے ہیں تم دو
نمبر ہو۔ ‘‘ بلو تھانیدار کے اس دس نمبری لہجے پر کھول اٹھی۔ اسے کمرے میں موجود
ہر شے دو نمبر۔ ۔ ۔ دو نمبر کی رٹ لگاتی محسوس ہوئی۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور
چنگھاڑنے لگی۔ ۔ ۔
’’میں دو نمبر نئیں ۔ سارا دن پانڈے مانجھ مانجھ
کے روٹی کمانی آں ۔ دو نمبر تے او کنجر جناں مینوں ماریا کٹیا۔ ۔ ۔ میرے کپڑے پاڑے
تے مینوں گالاں کڈیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بلو بولے جا رہی تھی اور اس کا مرد نظریں
نیچی کئے سنتا رہا لیکن تھانیدار چند لمحے ہی سن سکا۔ اس نے مزید کچھ لمحے بلو کو
چپ کرانے کی کوشش کی۔ پھر سپاہیوں کے ذریعے نکال باہر کیا۔
سپاہی جب اسے بازوؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے تھانے
سے باہر نکال رہے تھے، وہ یہی کہہ رہی تھی۔
’’میں دو نمبر نئیں ۔ میں مزدوری کرنی آں ۔ ‘‘
اور گھر پہنچ کر بھی وہ یہی کہتی رہی۔
اس دن کے بعد چند روز بلو کا مرد کم کم نظر آیا
اور بلو دو نمبری کے کنویں میں ایسی گری کہ بالکل نظر نہ آئی۔ وہ شام کی بجائے رات
کو گھر آنے لگی۔ اتوار کے دن بھی بیٹی کی جوئیں نکالتی نظر نہ آتی۔ جب گھر ہوتی تو
اپنی طرح جھکی ہوئی چارپائی پر لیٹی رہتی، کھانا پکاتی یا بچوں کے کپڑے دھوتی۔ اس
کی غیر موجودگی میں بچے سرکاری سکول سے واپس آ کر یونہی اِدھر اُدھر سے روکھی
سوکھی کھا کر گزارہ کرتے اور تھڑے پر بیٹھے گالی گالی کھیلتے رہتے۔
بلو کی پٹائی کے واقعہ کو جب ایک مہینہ ہو گیا تو
اس کا مرد دن چڑھے بال بنائے دروازے میں کھڑا نظر آنے لگا۔ وہ پرانے دنوں کی طرح
موٹرسائیکل چمکاتا اور غائب ہو جاتا۔ پھر ایک دن ایسا گیا کہ واپس نہ آیا۔ بس ایک
لفافہ آیا جس میں موجود کاغذ ڈاکیے نے پڑھ کر سنایا تو بلو چپ چاپ دروازہ بند کر
کے چارپائی پر جا لیٹی اور کچھ دیر آنسو بہانے کے بعد ہذیانی کیفیت میں گالیاں
بکنے لگی جو بند دروازہ چیرتی ہوئی گلی میں گونجتی رہیں ۔ ۔ ۔ گالیوں کے درمیان
وقفہ بھی آ جاتا۔
’’میں دو نمبر نئیں ۔ ۔ ۔ دو نمبر تھانیدار۔ ۔ ۔
دو نمبر محلے دار۔ ۔ ۔ دو نمبر میدا کنجر۔ ۔ ۔ وڈے آئے اک نمبر۔ ۔ ۔ میں دو نمبر
آں تے تسی دس نمبر او کنجرو۔ ۔ ۔ ‘‘ اور پھر ماں بہن کی گالیاں شروع ہو جاتیں ۔ کچھ
محلے دار اپنے بیرونی دروازوں کے اندر اور چند باہر کھڑے مستور اعضا کے غیرمستور
اظہار پر وجہ جاننے کی کوشش کرتے رہے۔ ۔ ۔ بعض گالیوں کو دل پر لے رہے تھے۔ ۔ ۔
کچھ کا سارا دھیان صرف گالیوں کے چٹخارے پر تھا۔ ۔ ۔ وہی مزے دار گالیاں جو بے مزہ
ہو گئی تھیں ۔
اس روز دو چار عورتیں شام کے وقت بلو کے گھر سے
نکلتی دکھائی دیں لیکن وہ اب تک دس نمبریوں کی دو نمبری کے کنویں سے نہیں نکل سکی۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment