راجندر سنگھ بیدی
میں نہیں جانتی۔ میں جا رہی تھی مزے سے۔
میرے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا پرس تھا، جس میں کچھ چاندی کے تار کڑھے ہوئے تھے
اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں میں اُچک کر فٹ پاتھ پہ ہو گئی،
کیونکہ مین روڈ پر سے اِدھر آنے والی بسیں ایک دم راستہ کاٹتی تھیں۔ اڈے پر پہنچنے
اور ٹائیم کیپر کو ٹائیم دینے کے لیے ۔ جبھی اس موڑ پر ہمیشہ ایکسیڈنٹ ہوتے تھے۔
بس تو خیر نہیں آئی، اس پر بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا۔
میری دائیں طرف سامنے کے فٹ پاتھ کے اُدھر مکان تھے اور میرے اُلٹے ہاتھ پر اسکول
کی سیمنٹ سے بنی ہوئی دیوار، جس کے اُس پار مشنری اسکول کے فادر لوگ ایسٹر کے
سلسلے میں کچھ سجا بنا رہے تھے۔ میں اپنے آپ سے بے خبر تھی، لیکن ایکا ایکی جانے
مجھے کیوں محسوس ہونے لگا کہ میں ایک لڑکی ہوں— جوان لڑکی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ
میں نہیں جانتی، مگر ایک بات کا مجھے پتہ ہے کہ ہم لڑکیاں صرف آنکھوں سے نہیں
دیکھتیں۔ جانے پرماتما نے ہمارا بدن کیسے بنایا ہے کہ اس میں کا ہر پور دیکھتا، محسوس
کرتا، پھیلتا اور سمٹتا ہے۔ گدگدی کرنے والا ہاتھ لگتا بھی نہیں کہ پورا شریر
ہنسنے مچلنے لگتا ہے۔ کوئی چوری چپکے دیکھے بھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہزاروں سوئیاں
ایک ساتھ چبھنے لگیں، جن سے تکلیف ہوتی ہے اور مزا بھی آتا ہے۔ البتہ کوئی سامنے
بے شرمی سے دیکھے تو دوسری بات ہے۔
اُس دن کوئی میرے پیچھے آ رہا تھا، جسے میں نے
دیکھا تو نہیں پر ایک سنسناہٹ سی میرے جسم میں دوڑ گئی۔ جہاں میں چل رہی تھی، وہاں
برابر میں ایک پرانی شیورلے گاڑ رُکی، جس میں ادھیڑ عمر کا بلکہ بوڑھا مرد بیٹھا
تھا۔ وہ بہت معتبر اور رُعب داب والا آدمی تھا۔ عمر نے جس کے چہرے پر لوڈو کھیلی
تھی، اس کی ایک آنکھ تھوڑی دبی ہوئی تھی جیسے کبھی اسے لقوہ ہوا ہو، لیکن وٹامن سی
اور بی کمپلیکس کے ٹیکے وغیرہ لگوانے، شیر کی چربی سے مالش کرنے یا کبوتر کا خون
ملنے سے ٹھیک ہو گیا ہو۔ لیکن پورا نہیں۔ ایسے لوگوں پہ بڑا ترس آتا ہے کیونکہ وہ
نہیں مارتے، اس پر بھی پکڑے جاتے ہیں۔ جب اس نے میری طرف دیکھا تو پہلے میں بھی
اسے غلط سمجھ گئی، لیکن چونکہ میرے اپنے گھر میں چچا گووند اس بیماری کے مریض ہیں،
اس لیے میں جان گئی اور دیر تک مجھے کچھ وہ نہ رہا۔ میں اپنے آپ میں شرمندہ سی محسوس
کرنے لگی۔ اس بڈھے کے داڑھی تھی جس میں روپئے کے برابر ایک سپاٹ سی جگہ تھی۔ ضرور
کسی زمانے میں اس کے وہاں کوئی بڑا سا پھوڑا نکلا ہو گا، جو ٹھیک تو ہو گیا لیکن
بالوں کو جڑ سے ہی غائب کر گیا۔ اس کی ڈاڑھی سر کے بالوں سے زیادہ سفید تھی۔ سر کے
بال کھچڑی تھے— سفید زیادہ اور کالے کم، جیسے کسی نے مونگ کی دال تھوڑی اور چاول
زیادہ ڈال دیے ہوں۔ اس کا بدن بھاری تھا،جیسے کہ اس عمر میں سب کا ہو جاتا ہے۔
میرا بھی ہو گا۔ کیا میٹرن لگوں گی۔ لوگ کہتے ہیں تمھاری ماں موٹی ہے، تم بھی آگے
چل کر موٹی ہو جاؤ گی۔ عجیب بات ہے نا کہ کوئی عمر کے ساتھ آپ ہی اپنی ماں ہو جائے
یا باپ۔ بڈھے کے قد کا پتہ نہ چلا البتہ، کیونکہ وہ موٹر میں ڈھیر تھا۔ رُکتے ہی
اُس نے کہا — ’’ سُنو۔‘‘
میں رُک گئی، تھوڑا جھک بھی گئی، اُس کی بات سننے
کے لیے—
’’میں
نے تمھیں دور سے دیکھا‘‘ وہ بولا۔
میں نے جواب دیا ’’جی؟‘‘
’’میں
جو تم سے کہنے جا رہا ہوں، اس پہ خفا نہ ہونا۔‘‘
’’کہیے‘‘
میں نے سیدھی کھڑی ہو کر کہا۔
اس بڈھے نے پھر مجھے ایک نظر دیکھا، لیکن مجھے
زیادہ کچھ وہ نہ ہوا۔ کیوں کہ وہ بڈھا تھا۔ پھر اس کے چہرے سے کوئی ایسی ویسی بات
نہ معلوم ہو رہی تھی، نہیں لوگ کہتے ہیں بڈھے بڑے لاگی ہوتے ہیں۔
’’تم
جا رہی تھیں‘‘ وہ شروع ہوا ’’اور تمھاری یہ ناگن، دایاں پانو اُٹھنے پر بائیں اور
بایاں اُٹھنے پر دائیں طرف جھوم رہی تھی۔‘‘
میں اک دم کانشس ہو گئی۔ میں نے اپنی چوٹی کی طرف
دیکھا جو اس وقت نہ جانے کیسے سامنے چلی آئی تھی۔ میں نے بغیر کسی ارادے کے سر کو
جھٹکا دیا اور ’’ناگن‘‘ پھر پیچھے چلی گئی۔ جیسے پھنکارتی ہوئی۔ بڈھا کہے جا رہا
تھا ’’میں نے گاڑی آہستہ کر لی اور پیچھے سے تمھیں دیکھتا رہا۔‘‘
اور آخر ایک دم بولا وہ بڈھا— ’’تم بہت خوبصورت
لڑکی ہو‘‘!
میرے بدن میں جیسے کوئی تکلّف پیدا ہو گیا اور میں
کروٹ کروٹ اسے چرانے لگی۔ بڈھا منتر مُگدھ مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نہ جانتی تھی،
اس کی بات کا کیا جواب دوں ؟ میں نے سنا ہے، باہر کے دیسوں میں کسی لڑکی کو کوئی
ایسی بات کہہ دے تو وہ بہت خوش ہوتی ہے، شکریہ ادا کرتی ہے لیکن ہمارے یہاں کوئی ایسا
رواج نہیں۔ اُلٹا ہمیں آگ لگ جاتی ہے— ہم کیسی بھی ہیں، کسی کو کیا حق پہنچتا ہے
ہمیں ایسی نظروں سے دیکھے؟ اور وہ پھر یوں—سڑک کے کنارے، گاڑی روک کر، اور شروع ہو
جائے۔ بدیس کی لڑکیوں کا کیا ہے، وہ تو بڈھوں کو پسند کرتی ہیں۔ اٹھارہ بیس برس کی
لڑکی ساٹھ ستر کے بوڑھے سے شادی کر لیتی ہے۔
’’یہ
بڈھا آخر چاہتا کیا ہے؟‘‘ میں نے سوچا۔
’’میں
اس خوبصورتی کی بات نہیں کرتا‘‘ وہ بولا ’’جسے عام آدمی خوبصورتی کہتے ہیں۔ مثلاً
وہ گورے رنگ کو اچھا سمجھتے ہیں۔‘‘
مجھے جھرجھری سی آ گئی۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں میرا
رنگ کوئی اتنا گورا بھی نہیں۔ سانولا بھی نہیں۔ بس — بیچ کا ہے۔ میں نے … میں تو
شرما گئی۔ ’’آپ؟‘‘ میں نے کہا اور پھر آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ کوئی دیکھ تو نہیں
رہا؟
بس دندناتی ہوئی آئی اور یوں پاس سے گزر گئی کہ
کار اور اس کے بیچ انچ بھر کا ہی فرق رہ گیا۔ لیکن وہ بڈھا دنیا کی ہر چیز سے بے
خبر تھا۔ آخر کو ہر ایک کو مرنا ہے، لیکن وہ اس وقت تو بیکار اور فضول موت سے بھی
بے خبر تھا۔ جانے کن دنیاؤں میں کھویا ہوا تھا وہ؟
دو تین تھائی — راما لوگ وہاں سے گزرے، کسی نوکری
پگار کے بارے میں جھگڑا کرتے ہوئے جو ایسٹر کی گھنٹی میں گم ہو گیا۔ دائیں طرف کے
مکان کی بالکنی پر ایک دُبلی سی عورت اپنے بالوں میں کنگھی کرتی ہوئی آئی اور ایک
بڑا سا گچھا بالوں کا کنگھی میں سے نکال کر نیچے پھینکتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔
کسی نے خیال بھی نہ کیا، سڑک کے کنارے میرے اور اس بڈھے کے درمیان وہ کیا بریسق چل
رہا تھا۔ شاید اس لیے کہ لوگ اسے میرا کوئی بڑا سمجھتے تھے۔ بوڑھا کہتا رہا —
’’تمھارا یہ سنولایا ہوا، کُندنی رنگ، گٹھا ہوا بدن جو ہمارے ملک میں ہر لڑکی کا
ہونا چاہیے‘‘ اور پھر ایکا ایکی بولا— ’’تمھاری شادی تو نہیں ہوئی؟‘‘
’’نہیں‘‘
میں نے جواب دیا۔
’’کرنا
بھی تو کسی گبرو جوان سے۔‘‘
’’جی؟‘‘
اب لہو میرے منھ کو آنے لگا تھا۔ آپ ہی سوچیے، آنا
چاہیے تھا یا نہیں؟ پر اس سے پہلے کہ میں اس بڈھے سے کچھ کہتی، اس نے ایک نئی ہی
بات شروع کر دی— ’’تم جانتی ہو، آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں؟‘‘
’’چور!‘‘
میں نے کہا ’’کیسے چور؟‘‘
’’جو بچّوں
کو چُرا کر لے جاتے ہیں۔ انھیں بے ہوش کر کے ایک گٹھری میں ڈال لیتے ہیں۔ ایک ایک
وقت میں چار چار۔ پانچ پانچ۔‘‘
میں بڑی حیران ہوئی۔ میں نے کہا بھی تو صرف اتنا—
’’تو؟‘‘مطلب، مجھے—میرا اس بات سے کیا تعلق؟
جبھی اس بڈھے نے کمر سے نیچے میری طرف دیکھا اور
بولا ’’دیکھنا کہیں پولس تمھیں ہی پکڑ کر نہ لے جائے۔‘‘
اور اس کے بعد اس بڈھے نے ہاتھ ہوا میں ہلایا اور
گاڑی اسٹارٹ کر کے چلا گیا۔ میں بے حد حیران کھڑی تھی … چور … گٹھری، جس میں چار
چار، پانچ پانچ بچّے … جبھی میں نے خود بھی اپنے نیچے کی طرف دیکھا اور سمجھی — میں
ایک دم جل اُٹھی — پاجی، کمینہ۔ شرم نہ آئی اسے؟ میں اس کی پوتی نہیں تو بیٹی کی
عمر کی تو ہوں ہی اور یہ مجھ سے ایسی باتیں کر گیا، جو لوگ بدیس میں بھی نہیں
کرتے۔ اسے حق کیا تھا ایک لڑکی کو سڑک کے کنارے کھڑی کرے اور ایسی باتیں کرے؟ کسی
بھی عزت والی، سوابھیمانی لڑکی سے۔ اس کی ہمت کیسے پڑی؟ آخر کیا تھا مجھ میں؟ یہ
سب مجھی سے کیوں کہا؟ ایک بے عزتی کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ میں
کیا ایک اچھے گھر کی لڑکی دکھائی نہیں دیتی؟ میں نے لباس بھی کوئی ایسا نہیں پہنا
جو بازاری قسم کا ہو۔ قمیص تھوڑی فٹ تھی البتہ، جیسی عام لڑکیوں کی ہوتی ہے اور
نیچے شلوار۔ کیوں؟ یہ ایسا کیوں ہوا؟ ایسے کو تو پکڑ کر مارنا اور مار مار کر سُور
بنا دینا چاہیے۔ پولس میں اس کی رپورٹ کرنی چاہیے۔ آخر کوئی تک ہے؟ … اس کی گاڑی
کا نمبر؟ مگر جب تک گاڑی موڑ پر نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ میں بھی کتنی مورکھ
ہوں، جو نمبر بھی نہیں لیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے میرے ساتھ، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
وقت پر دماغ کام نہیں کرتا۔ بعد میں خیال آتا ہے تو خود ہی سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
میں نے سائیکا لوجی کی کتاب میں پڑھا ہے، ایسی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کی
عزت کرتے ہیں، اپنی عزت کرتے ہیں۔ اسی لیے مجھے وقت پر نمبر لینا یاد نہ آیا۔ میں
رونکھی سی ہو گئی، سامنے سے پودار کالج کے کچھ لڑکے گاتے، سیٹیاں بجاتے ہوئے گزر
گئے۔ انھوں نے تو ایک نظر بھی میری طرف نہ دیکھا مگر یہ بڈھا…؟!
میں دراصل دادر اُون کے گولے خریدنے جا رہی تھی۔
میرا فسٹ کزن بیگل سویڈن میں تھا، جہاں بہت سردی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ میں کوئی
آٹھ پلائی کی اُون کا سوئیٹر بُن کر اسے بھیج دوں۔ کزن ہونے کے ناتے وہ میرا بھائی
تھا، لیکن تھا بدمعاش۔ اس نے لکھا —تمھارے ہاتھ کا بُنا ہوا سوئیٹر بدن پر رہے گا
تو سردی نہیں لگے گی!… مجھے گھر میں کوئی اور کام بھی تو نہ تھا۔ بی اے پاس کر چکی
تھی اور پاپا کہتے تھے، آگے پڑھائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں، اگر کسی لڑکی کو
پروفیشن میں جانا ہو تو ٹھیک ہے، لیکن اگر ہر ہندستانی لڑکی کی طرح سے شادی ہی اس
کا پروفیشن ہے تو پھر کیا فائدہ؟ اس لیے میں گھر ہی میں رہتی اور آلتو فالتو کام
کیا کرتی تھی، جیسے سوئیٹر بُننا یا بھیا اور بھابی بہت رومینٹک ہو جائیں اور
سینما کا پروگرام بنالیں تو پیچھے بِندو، ان کی بچّی کو سنبھالنا۔ اس کے گیلے
کپڑوں، پوتڑوں کو دھونا سکھانا وغیرہ۔ لیکن بڈھے سے اس مڈبھیڑ کے بعد میں جیسے ہل
ہی نہ سکی۔ میرے پانومیں جیسے کسی نے سیسہ بھر دیا۔ پتہ نہیں آگے چل کر کیا ہو —؟
اور میں گھر لوٹ آئی۔
اتنی جلدی گھر لوٹتے ہوئے دیکھ کر ماں حیران رہ
گئی۔ اُس نے سمجھا میں اُون کے گولے خرید بھی لائی ہوں۔ لیکن میں نے قریب قریب
روتے ہوئے اُسے ساری بات کہہ سنائی۔ اگر گول کر گئی تو وہ چار چار پانچ پانچ بچّوں
والی بات۔ کچھ ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو بیٹی ماں سے بھی نہیں کرسکتی۔ ماں کو
بڑا غصّہ آیا اور وہ ہوا میں گالیاں دینے لگی۔ عورتوں کی گالیاں، جن سے مردوں کا
کچھ نہیں بگڑتا اور جو انھیں اور ایکسائیٹ کرتے ہیں۔ آخر ماں نے ٹھنڈی سانس لی اور
کہا— ’’اب تجھے کیا بتاؤں، بٹیا۔ یہ مرد سب ایسے ہی ہوتے ہیں — ’’کیا جوان، کیا
بڈھے؟‘‘
’’پر
ماں ‘‘ میں نے کہا ’’پاپا بھی تو ہیں۔‘‘
ماں بولی — ’’اب میرا منھ مت کھُلواؤ۔‘‘
’’کیا
مطلب؟‘‘
’’دیکھا
نہیں تھا اُس دن …کیسے راما لِنگم کی بیٹی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔‘‘
کچھ بھی ہو، ماں کے اس مردوے کے گالیاں دینے سے
ایک حد تک میری تسلّی ہو گئی تھی۔ مگر بڈھے کی باتیں رہ رہ کر میرے کانوں میں گونج
رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی— کہیں پھر مل جائے تو میں … اور اس کے بعد میں اپنی بے
بسی پر ہنسنے لگی۔ جبھی میں اُٹھ کر اندر گئی۔ سامنے قد آدم آئینہ تھا جس کے سامنے
میں رُک گئی اور اپنے سراپے کو دیکھنے لگی۔ کولھوں سے نیچے نظر گئی تو پھر مجھے اس
کی چار چار پانچ پانچ بچّوں والی بات یاد آ گئی اور میرے کانوں کی لویں تک گرم
ہونے لگیں۔ وہاں کوئی نہیں تھا، پھر میں کس سے شرما رہی تھی؟ ہو سکتا ہے، بدن کا
یہی حصہ جسے لڑکیاں پسند نہیں کرتیں، مردوں کو اچھا لگتا ہو۔ جیسے لڑکے ایک دوسرے
کے سیدھے اور ستواں بدن کا مذاق اڑاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ عورتوں کو اچھا
لگتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد کو سوکھا سڑا ہونا چاہیے۔ نہیں، ان کا بدن ہو
تو اوپر سے پھیلا ہوا۔ مطلب چوڑے کاندھے، جھکی چھاتی اور مضبوط بازو۔ البتہ نیچے
سے سیدھا اور ستواں۔
پاپا ایکا ایکی بیچ والے کمرے میں چلے آئے، جہاں
میں کھڑی تھی اور خیالوں کا وہ تار ٹوٹ گیا۔ پاپا آج بڑے تھکے تھکے سے نظر آ رہے
تھے۔ کوٹ جو وہ پہن کر دفتر گئے تھے، کاندھے پر پڑا ہوا تھا۔ ٹوپی کچھ پیچھے سرک
گئی تھی۔ انھوں نے اندر آ کر ایسے کہا — ’’بٹیا‘‘ اور پھر ٹوپی اُٹھا کر اپنے گنجے
سر کو کھجایا۔ ٹوپی پرے رکھنے کے بعد وہ باتھ روم کی طرف چلے گئے، جہاں انھوں نے
قمیص اتاری۔ ان کی بنیائن پسینے سے پٹی تھی۔ پہلے تو انھوں نے منھ پر پانی کے
چھینٹے مارے اور پھر اوپر طاق سے یوڈی کلون نکال کر بغلوں میں لگائی اور ایک نیپکن
سے منھ پونچھتے ہوئے لوٹ آئے اور جیسے بے فکر ہو کر خود کو صوفے میں گرا دیا۔ ماں
نے پوچھا —— ’’شکنجبین لو گے؟‘‘ جس کے جواب میں انھوں نے کہا — ’’کیوں؟ وہسکی ختم
ہو گئی؟—ابھی پرسوں ہی تو لایا تھا، میکن کی بوتل۔‘‘
جب میں بوتل اور گلاس لائی تو ماں اور پاپا آپس
میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ میرے آتے ہی وہ خاموش ہو گئے۔ میں ڈر گئی۔ مجھے یوں
لگا، جیسے وہ اُس بڈھے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن نہیں — وہ چچا گووند کے بارے میں
کچھ کہہ رہے تھے۔ آخری بات سے مجھے یہی اندازہ ہوا چچا اندر سے کچھ اور ہیں، باہر
سے کچھ اور۔
پھر کھانا وانا — جس میں رات ہو گئی۔ بیچ میں بے
موسم کی برسات کا کوئی چھینٹا پڑ گیا تھا اور گھر کے سامنے لگے ہوئے اشوک پیڑ کے
پتے، گِرے گِرے اور لمبوترے تھے، زیادہ ہرے اور چمکیلے ہو گئے تھے۔ سڑک پر کی
کمیٹی کی بتی اور اس کی روشنی ان پر پڑتی تھی تو وہ چمک چمک جاتے تھے۔ ہوا ایک
ساتھ نہیں چل رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جھونکوں میں آ رہی ہے اور جب
اشوک کے پتوں پر جھونکا آتا، شاں شاں کی آواز پیدا ہوتی، تو یوں لگتا جیسے ستار کا
جھالا ہے۔ نانکو— نوکر نے بستر لگا دیا تھا۔ میری عادت تھی کہ ادھر بستر پر لیٹی،
اُدھر سو گئی۔ لیکن اُس دن نیند تھی کہ آہی نہ رہی تھی۔ شاید اس لیے کہ سڑک پر کی
روشنی عین میرے سرہانے پہ پڑتی تھی اور جب میں دائیں کروٹ لیتی تو وہ میری آنکھوں
میں کھبنے لگتی۔ میں نے آنکھیں لَوٹ کر دیکھا تو بجلی کا بلب ایک چھوٹا سا چاند بن
گیا تھا، جس میں ہالے سے باہر کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ میں نے اُٹھ کر بیڈ کو تھوڑا
پرے سرکا لیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ کرنیں وہیں تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب وہ
خود میرے اپنے اندر سے پھوٹ رہی تھیں۔ آپ تو جانتے ہیں، جیوتی شبد ہو جاتا ہے اور
شبد جیوتی۔ جبھی وہ کرنیں آواز میں بدل گئیں، اس بڈھے کی آواز میں!
’’دھت!‘‘
میں نے کہا اور اسی کروٹ پر لیٹے لیٹے مَن میں گائیتری کا پاٹھ کرنے لگی۔ لیکن وہی
کرنیں چھوٹے چھوٹے، گول گول، گدرائے گدرائے بچوں کی شکل میں بدلنے لگیں۔ ان کے
پیچھے گبرو جوان کا چہرہ نظر آ رہا تھا، لیکن دھندلا دھندلا سا جیسے وہ ان بچّوں
کا باپ تھا۔ اس کی شکل اس بڈھے سے ملتی جُلتی تھی… نہیں تو…
جبھی اُس نوجوان کی شکل صاف ہونے لگی۔ وہ ہنس رہا
تھا۔ اس کی بتیسی کتنی سفید اور پکّی تھی۔ اس نے فوج کی لفٹیننٹ کی وردی پہن رکھی
تھی۔ نہیں— پولس انسپکٹر کی۔ نہیں—سکرٹ، ایوننگ سوٹ، جس میں وہ بے حد خوبصورت
معلوم ہو رہا تھا۔میں نے ٹیچر کا بتایا ہوا نسخہ استعمال کرنا شروع کیا— اپنی
نیندیں واپس لانے کے لیے۔ میں فرضی بھیڑیں گننے لگی۔ مگر بے کار تھا، سب کچھ بے
کار۔ پرماتما جانے اُس بڈھے نے کیا جادو جگا دیا تھا یا میری اپنی ہی قسمت پھوٹ
گئی تھی۔ اچھی بھلی جا رہی تھی، اُون کے گولے خریدنے، بیگل کے لیے۔ … بیگل! دھت…
وہ میرا بھائی تھا۔ پھر گولے کی اُون کے موٹے موٹے اور بٹے ہوئے دھاگے پتلے ہو
گئے۔ مکڑی کے جال کی طرح سے اور میرے دماغ میں اُلجھ گئے۔ پھر جیسے سب صاف ہو گیا۔
اب سامنے ایک چٹیل سا میدان تھا، جس میں کوئی ولی، اوتار بھیڑیں چرا رہا تھا۔ وہ
بش شرٹ پہنے ہوئے تھا— تندرست، مضبوط اور خوب صورت ۔ ایک لا اُبالی پن میں اُس نے شرٹ
کے بٹن کھول رکھے تھے اور چھاتی کے بال صاف اور سامنے نظر آ رہے تھے، جن میں سر
رکھ کر اپنے دکھڑے رونے میں مزا آتا ہے۔ وہ بھیڑیں کیوں چرا رہا تھا؟ اب بھی مجھے
یاد ہے وہ بھیڑیں گنتی میں تہتّر تھیں۔ میں سوگئی۔
مجھے کچھ—ہو گیا۔ نہ صرف یہ کہ میں بار بار خود کو
آئینے میں دیکھنے لگی بلکہ ڈر نے بھی۔ بچے بری طرح میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور
میں پکڑے جانے کے خوف سے کانپ رہی تھی۔ گھر میں میرے رشتے کی باتیں چل رہی تھیں۔
روز کوئی نہ کوئی دیکھنے دکھانے کو چلا آتا تھا۔ لیکن مجھے ان میں سے کوئی بھی
پسند نہ تھا۔ کوئی ایسے ہی مرامر نکلا تھا اور کوئی تندرست بھی تھا تو اس نے
کنویکس شیشوں والی عینک پہن رکھی تھی۔ اس نے صاحب کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ہے — کی
ہو گی۔ نہیں چاہیے کیمسٹری۔ ان میں سے کوئی بھی تو نہیں تھا، جو میری نظر میں جچ
سکے، جو اب تک میری نہیں، اُس بڈھے کی نذر ہو چکی تھی۔ میں نے دیکھا، اب سینما
تماشے میں جانے کو بھی میرا من نہ چاہتا تھا، حالانکہ شہر میں کئی نئی اور اچھی
پکچریں لگی تھیں اور وہی ہیرو لوگ ان میں کام کر رہے تھے، جو کل تک میرے چہیتے
تھے۔ لیکن اب ایکا ایکی وہ مجھے سِسی دکھائی دینے لگے۔ وہ ویسے ہی پیڑ کے پیچھے سے
گھوم کر لڑکی کے پاس آتے تھے اور عجیب طرح کی زنانہ حرکتیں کرتے ہوئے اسے لبھانے
کی کوشش کرتے تھے۔ بھلا مرد ایسے تھوڑے ہوتے ہیں؟ عورت کے پیچھے بھاگتے ہوئے… اُسے
موقع ہی نہیں دیتے کہ وہ ان کے لیے روئے، تڑپے حد ہے نا؟ مرد ہی نہیں جانتے کہ مرد
کیا ہے؟ ان میں سے ایک بھی تو میری کسوٹی پہ پورا نہ اترتا تھا—جو میری کسوٹی بھی
نہ تھی۔
انہی دنوں میں نے اپنے آپ کو کوپریج کے میدان میں
پایا، جہاں ہند اور پاکستان کے بیچ ہاکی میچ ہو رہا تھا۔ پاکستان کے گیارہ
کھلاڑیوں میں سے کم از کم چار پانچ تو ایسے تھے جو نظروں کو لوٹے لیتے تھے۔
اِدھر ہند کی ٹیم میں اتنے ہی— چار پانچ، جن میں سے دو سکھ تھے۔ چار پانچ ہی
کیوں؟— مجھے ہنسی آئی ——پاکستان کا سنٹر فارورڈ عبد الباقی— کیا کھلاڑی تھا۔ اس کی
ہاکی کیا تھی، چمبک پتھر تھی جس کے ساتھ گیند چمٹا ہی رہتا تھا۔ یوں پاس دیتا تھا
جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ چلتا تو یوں جیسے نومینزلینڈ میں جا رہا ہے۔ ہندستانی
سائیڈ کے گول پر پہنچ کر ایسا زبردست نشانہ بٹھاتا کہ گولی کی سب محنتیں بے کار،
گیند پوسٹ کے پار—گول! تماشائی شور مچاتے۔ بمبئی کے مسلمان نعرے لگاتے، بغلیں
بجاتے۔ یہی نہیں، اُتری بھارت کے ہندستانی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ ہندستانی
ٹیم کا شنگار آنند تھا—کیا کارنر لیتا تھا۔ جب اُس نے گول کیا تو اس سے بھی زیادہ
شور ہوا۔ اب دونوں طرف کے فاؤل کھیلنے لگے۔ وہ آزادانہ ایک دوسرے کے ٹخنے، گھٹنے
توڑنے لگے، لیکن میچ چلتا رہا۔
پاکستانی ٹیم ہندستان پر بھاری تھی۔ ان میں سے کسی
کے ساتھ لَو لگانا بھی ٹھیک نہ تھا۔ جات تو جات، وہ ہمارے دیس کے بھی نہ تھے۔ لیکن
ہر وہ چیز انسان کو ایکسائٹ کرتی ہے، جسے کرنے سے اُسے منع کیا جائے۔ ہندو لڑکی
کسی مسلمان کے ساتھ شادی کر لیتی ہے یا مسلمان یا سِکھ کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو کیا
شور مچتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا تو اس لڑکی سے، کہ اسے کیا تکلیف تھی۔ چاہے وہ لڑکی
خود ہی بعد میں کہے—کیا ہندو، کیا مسلمان اور کیا سِکھ ۔ سب ایک ہی سے کمینے ہیں۔
ہندستانی ٹیم میں ایک اسٹینڈبائی تھا، جو سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور گبھرو جوان…
اسے کھِلا کیوں نہیں رہے تھے؟
کھیل کے بعد جب میں آٹوگراف لینے کے لیے کھلاڑیوں
کے پاس گئی، تو اپنی کاپی اس اسٹینڈبائی کے سامنے بھی کر دی جس سے وہ بہت حیران
ہوا۔ وہ تو کھیلا ہی نہ تھا۔ میں نے اس سے کہا—تم کھیلو گے۔ ایک دن کھیلو گے۔ کوئی
بیمار پڑ جائے گا، مر … تم کھیلو گے۔ سب کو مات دو گے۔ ٹیم کے کیپٹن ہو گے!
اسٹینڈبائی کا تو جیسے دل پگھل کر باہر آ گیا۔ نم
آنکھوںسے اُس نے میری طرف دیکھا، جیسے میں جو کچھ کہہ رہی ہوں، وہ بھوش وانی ہے!…
اور وہ تھی بھی کیوں کہ وہ سب کچھ میں تھوڑے کہہ رہی تھی؟ میرے اندر کی کوئی چیز
تھی جو مجھے مجبور کر رہی تھی،وہ سب کہنے کو۔ پھر میں نے اسے چائے کی دعوت دی، جو
اس نے مان لی اور میں اسے ساتھ لے کر گیلارڈ پہنچ گئی۔ جب میں اس کے ساتھ چل رہی
تھی تو ایک سنسناہٹ تھی، جو میرے پورے بدن میں دوڑ دوڑ جاتی تھی۔ کیسے ڈر خوشی ہو
جاتا ہے اور خوشی ڈر۔میں نے چذیری کی جو ساری پہن رکھی تھی، بہت پتلی تھی۔ مجھے
شرم آ رہی تھی اور شرم کے بیچ میں ایک مزا۔ کبھی کبھی مجھے یاد آتا تھا اور پھر
بھول بھی جاتی تھی کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ آخر دنیا میں کوئی نہیں تھا، میرے
اور اُس اسٹینڈبائی کے سوا جس کا نام جے کشن تھا لیکن اُسے سب پرونٹو کے نام سے
پکارتے تھے۔
جبھی ہم دونوں گیلارڈ پہنچ گئے اور ایک سیٹ پر
بیٹھ گئے۔ ایک دوسرے کے وجود سے ہم دونوں جیسے شرابی ہو گئے تھے۔ ہم ساتھ لگ کے
بیٹھے تھے کہ پرے ہو گئے اور پھر ساتھ لگ کر بیٹھ گئے۔ بدنوں میں سے کوئی بو مہک
رہی تھی — سوندھی سوندھی، جیسے تنور میں پڑی ہوئی روٹی سے اُٹھتی ہے۔
میں چاہتی تھی کچھ ہو جائے ہم دونوں کے بیچ—پیار، جیسے پیار کوئی آلا کارت ڈِش
ہوتی ہے۔ چائے آئی، جسے پیتے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہ چور نظروں سے مجھے دیکھ رہا
ہے—میرے بدن کے اس حصے کو جہاں اُس بڈھے کی نظریں ٹِکی تھیں۔ وہ بڈھا تھا؟ ماں نے
کہا تھا—مرد سب ایک ہی سے ہوتے ہیں، کیا جوان اور کیا بڈھے؟
ہو سکتا تھا ہماری بات آگے بڑھ جاتی۔ لیکن پرونٹو
نے سب بنٹادھار کر دیا۔ پہلے اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے دبا دیا۔
جسے میں پیار کی بارہ کھڑی سمجھی۔ لیکن اس کے بعد وہ سب کی نظریں بچا کر اپنا ہاتھ
میرے شریر کے اُس حصے پہ دوڑانے لگا، جہاں عورت مرد سے جدا ہونے لگتی ہے۔ میرے تن
بدن میں کوئی آگ سی لپک آئی اور آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹنے لگیں—نفرت کی، محبت کی۔
میرا چہرہ لال ہونے لگا۔ میں باتیں بدلنے لگی۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹکا، تو اس نے
مایوس ہو کر، رات بیک بے میں ملنے کی دعوت دی، جسے فوراً مانتے ہوئے میں نے ایک
طرح سے انکار کر دیا۔ وہ ’مجھے‘ عورت کو بالکل غلط سمجھ گیا تھا، جو ڈھرّے پر تو
آتی ہے مگر سیدھے نہیں۔ اس کی تو گالی بھی سیدھی نہیں ہوتی۔ بے حیا مرد کی گالی کی
طرح۔ اس کا سب کچھ گول گول ہوتا ہے، ٹیڑھا ٹیڑھا ۔ روشنی سے وہ گھبراتی ہے۔
اندھیرے سے اسے ڈر لگتا ہے۔ آخر اندھیرا رہتا ہے نہ ڈر، کیوں کہ وہ ان آنکھوں سے
پرے، ان روشنیوں سے پرے ایک ایسی دنیا میں ہوتی ہے جو بالغوں کی دنیا یوگ کی دنیا
ہوتی ہے، جسے آنکھوں کے بیچ کی تیسری آنکھ ہی گھورسکتی ہے۔
گیلارڈ سے باہر نکلے تو میرے اور پرونٹو کے بیچ
سوائے تندرستی کے اور کوئی بات سانجھی نہیں رہ گئی تھی۔ میرے کھسیائے ہونے سے وہ
بھی کچھ کھسیا چکا تھا۔ جبھی سڑک پر جاتی ہوئی ایک ٹیکسی کو میں نے روکا۔ پرونٹو
نے بڑھ کر میرے لیے دروازہ کھولا اور میں لپک کر اندر بیٹھ گئی۔
’’بیک
بے‘‘ پرونٹو نے مجھے یاد دلایا۔
میں نے طوطے کی طرح سے رٹ دیا— ’’بیک بے۔‘‘ اور
ٹیکسی ڈرائیور کی طرف منھ موڑتے ہوئے بولی— ’’ماہم۔‘‘
ڈرائیور نے پیچھے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر
حیرانی تھی۔
’’بیک
بے نہیں؟‘‘ وہ بولا۔
’’نہیں۔‘‘
میں نے کرخت سی آواز میں جواب دیا—— ’’ماہم۔‘‘
’’آپ
تو ابھی…‘‘
’’چلو،
جہاں میں کہتی ہوں۔‘‘
ٹیکسی چلی تو پرونٹو نے میری طرف ہاتھ پھیلایا،جو
اتنا لمبا ہو گیا کہ محمد علی روڈ، بھائی کھلہ، پریل، دادر، ماہم، سیتلا دیوی ٹمپل
روڈ تک میرا پیچھا کرتا، مجھے گدگداتا رہا۔ آخر میں گھر پہنچ گئی۔
اندر، یادو بھیّا ایک جھٹکے کے ساتھ بھابی کے پاس سے
اُٹھے۔ میں سمجھ گئی کیونکہ ماں کا کڑا حکم تھا کہ میرے سامنے وہ اکٹھے نہ بیٹھا
کریں— ’’گھر میں جوان لڑکی ہے۔‘‘
میں نے لپک کر بندو کو جھولے میں سے اُٹھایا اور
اس سے کھیلنے لگی۔ بندو مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ ایک پل کے لیے تو میں گھبرا
گئی—جیسے اُسے سب کچھ معلوم تھا۔ کچھ لوگ کہتے بھی ہیں کہ بچوں کو سب پتہ ہوتا ہے۔
صرف وہ کہتے نہیں۔
گھر میں گووند چاچا بھی تھے جو پاپا کے ساتھ اسٹڈی
میں بیٹھے تھے اور ہمیشہ کی طرح سے ماں کی جان ناک میں کیے ہوئے تھے۔ عجیب تھا
دیور بھابی کا یہ آپسی رشتہ ۔جب ملتے تھے ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔لڑنے
جھگڑنے، گالی گلوج کے سوا کوئی بات ہی نہ ہوتی۔ پاپا ان کی لڑائی میں کبھی دخل نہ
دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے نا کہ ایک روز کی بات ہو تو کوئی بولے بکے بھی۔ لیکن روز
روز کا یہ جھگڑا کون مٹائے؟ اور وہ سب ٹھیک ہی تو تھا، کیوں کہ اس ساری لے دے کے باوجود
ماں اتنا سا بھی بیمار ہوتی تو ہمیشہ گووند ہی کو یاد کرتی۔ اور بھی تو دیور تھے
ماں کے، جن کے بیچ ’’پائے لاگن‘‘ اور ’’جیتے رہو‘‘ کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ وہ ماں
کو تحفوں کی گھوس بھی دیتے تھے، لیکن وہاں کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ دینا تو ایک طرف
گووند چاچا ماں کو ٹھگتے ہی رہتے تھے، لیکن اس پر بھی وہ اسے سب سے سوا سمجھتی
تھی۔ اور وہ لے کر اُلٹا ماں کو یہ احساس دلاتے تھے جیسے اس کے مِتّروں پہ کوئی
احسان کر رہے ہیں۔ کئی بار ماں نے کہا —گووند اس لیے اچھا ہے کہ اس کے دل میں کچھ
نہیں۔ اور پاپا جواب میں ہمیشہ یہی کہتے تھے — دماغ میں بھی کچھ نہیں۔ اور ماں اس
بات پر لڑنے، مرنے مارنے پر تیار ہو جاتی۔ اور جب وہ گووند چاچا سے اپنی دیورانی
کے بارے میں پوچھتی— تم اجیتا کو کیوں نہیں لاتے؟ تو یہی جواب ملتا—کیا کروں لا
کر؟ پھر تم سے اس کی چوٹی کھنچوانا ہے؟ جلی کٹی سنوانا ہے؟… ماں جواب میں گالیاں
دینے لگتی، گالیاں کھاتی اور چاچا کے چلے جانے کے بعد دھاڑیں مار کر روتی اور پھر
وُہی—کہاں ہے گووندا؟اسے بلاؤ۔ میرا تو اس گھر میں وہی ہے۔ اپنے پاپا کا کیا
پوچھتی ہو؟ وہ تو ہیں ہی بھولے مہیش، گوبر گنیش۔ ان کے تو کوئی بھی کپڑے اتروا لے…
اور یہ میں نے ہر جگہ دیکھا ہے، ہر بیوی اپنے میاں کو بہت سیدھا، بہت بے وقوف
سمجھتی ہے۔ اور وہ چُپ رہتا ہے۔ شاید اسی میں اس کا فائدہ ہے۔
اس دن گووند چاچا ڈائرکٹرجنرل شپنگ کے دفتر میں
کام کرنے والے کسی مسٹر سولنکی کی بات کر رہے تھے اور اصرار کر رہے تھے— ’’میری بات
آپ کو ماننا پڑے گی۔‘‘
’’تم
بِجنس مین ہونا‘‘ ماں کہہ رہی تھی ’’اس میں بھی کوئی سوارتھ ہو گا تمھارا۔‘‘
اس پر گووند چاچا جل بھُن گئے۔ چلاّتے ہوئے اُنھوں
نے کہا ’’تم کیا سمجھتی ہو، کامنی تمھاری بیٹی ہے، میری نہیں ہے۔‘‘
جب مجھے پتہ چلا کہ وہ مسٹر سولنکی کے لڑکے کے
ساتھ میرے ہی رشتے کی بات چل رہی ہے اور اس کے بعد کنڈم اسپنڈل کی طرح سے اور بھی
دھاگے کھُلنے لگے، جن کا مجھے آج تک پتہ نہ تھا۔ گووند چاچا کے منھ پر جھاگ تھے
اور وہ بک رہے تھے۔ ’’تو … تو نے اجیتا کے ساتھ میری شادی کر دی، میں نے آج تک چوں
چرا کی؟… کہتی ہے، میری مائیکے سے ہے، دور کے میرے ماما کی لڑکی ہے—کہاں رکھوں؟
زندگی کیا آنکھوں سے بناتے ہیں؟ وہی آنکھیں اب وہ مجھے دکھاتی ہے۔ اور تو
اور،تمھیں بھی دکھاتی ہے۔‘‘
پہلی بار میں نے گووند چاچا کا بریک ڈاؤن دیکھا۔
میں سمجھتی تھی وہ آدرش آدمی ہیں اور اجیتا چاچی سے پیار کرتے ہیں۔ آج یہ راز بھی
کھُلا کہ ان کے ہاں بچّہ کیوں نہیں ہوتا۔ کینٹب نیوجن تو ایک نام تھا۔
ماں نے کہا — ’’کامنی تمھاری بیٹی ہے۔ اسی لیے تو
نہیں چاہتی اسے کسی بھی کھڈے میں پھینک دو۔‘‘
میرا خیال تھا کہ اس پر اور تو تو میں میں ہو گی۔
اور گووند چاچا بائیں بازو کی پارٹی کی طرح سے واک آؤٹ کر جائیں گے۔ لیکن وہ اُلٹا
قسمیں کھانے لگے— ’’تمھاری سوگند بھابی۔ اس سے اچھا لڑکا تمھیں نہ ملے گا۔ وہ
بڑودہ کی سنٹرل ریلوے ورکشاپ میں فورمین ہے۔ بڑی اچھی تنخواہ پاتا ہے۔‘‘
میں سب کچھ سُن رہی تھی اور اپنے آپ میں جھلاّ رہی
تھی۔ لڑکا اچھا ہے، تنخواہ اچھی ہے لیکن شکل کیسی ہے، عقل کیسی ہے، عمر کیا ہے؟ اس
کے بارے میں کوئی کچھ کہتا ہی نہیں۔ فورمین بنتے بنتے تو برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ
ہمارا دیس ۔ پچاس سال کا مرد بھی بیاہنے آئے تو یہاں کی بولی میں اُسے لڑکا ہی
کہتے ہیں۔ اس کی صحت کیسی ہے۔ کہیں انٹلیکچویل تو نہیں معلوم ہوتا۔ جبھی مجھے
پرونٹو کا خیال آیا، جو اس وقت بیک بے پر میرا انتظار کر رہا ہو گا—اسٹینڈبائی! جو
زندگی بھر اسٹینڈبائی ہی رہے گا۔ کبھی نہ کھیلے گا۔ اُسے کھیل آتا ہی نہیں۔ اس میں
صبر ہی نہیں۔ پھر مجھے اس غریب پر ترس آنے لگا۔ جی چاہا بھاگ کر اس کے پاس چلی
جاؤں۔ اسے تو میں نے دیکھا اور پسند بھی کیا تھا، لیکن اس فورمین کو جو بیک گراؤنڈ
میں کہیں مسکرا رہا تھا۔
پھر جیسے من کے اندھیرے میں مچھّر بھنبھنانے لگے۔
مس گیتا سے مسز سولنکی کہلائی تو کیسی لگوں گی—بکواس!
گووند چاچا کہہ رہے تھے—لڑکا تن کا اُجلا ہے، من
کا اُجلا ہے۔ اس کی آتما کتنی اچھی ہے اس کا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچّوں سے
پیار کرتا ہے، بچّے اُس پر جان دیتے ہیں، اس کے اِردگرد منڈلاتے—ہی ہی، ہو ہو،
ہاہا کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی ان کے ساتھ غی غی، غُوغُو، غاں غاں—
بس …میں اندر کے کسی سفر سے اتنا تھک چکی تھی کہ
رات مجھے بھیڑیں گننے کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ ایک سپاٹ، بے رنگ، بے خواب سی نیند آئی
مجھے، جو لمبے رَت جگوں کے بعد آتی ہے۔
دو ہی دنوں میں وہ لڑکا گھر پہ موجود تھا۔ ارے؟…
میرے سب اندازے کتنے غلط نکلے۔ وہ ہاکی ٹیم کے لڑکوں، کیا کھیلنے والے اور کیا
اسٹینڈبائی۔ ان سب س زیادہ گبھرو، زیادہ جوان تھا۔ اس نے صرف کسرت ہی نہ کی تھی،
آرام بھی کیا تھا۔ اس کا چہرہ اندر کی گرمی سے تمتمایا ہوا تھا اور رنگ کندنی
تھا—میری طرح۔ مضبوط دہانہ، مضبوط دانتوں کی بیڑھ۔ جیسے بے شمار گنّے چوسے ہوں،
گاجر مولیاں کھائی ہوں، شاید کچّے شلغم بھی۔ وہ گھبرا رہا تھا ایک طرف اور اپنی
گھبراہٹ کو بہادری سے چھپا رہا تھا دوسری طرف۔ آتے ہی اس نے مجھے نمستے کی، میں نے
جواب میں کر ڈالی۔ ماں کو پرنام کیا۔ جب وہ میری طرف نہ دیکھتا تھا، تو میں اسے
دیکھ لیتی تھی۔ یہ اچھا ہوا کسی کو پتہ نہ چلا۔ میری ٹانگیں کپکپانے لگی ہیں۔ دل
دھڑام سے شریر کے اندر ہی کہیں نیچے گر گیا ہے۔ آج کل کی لڑکی ہونے کے ناتے مجھے
ہسٹریا کا ثبوت نہ دینا تھا، اس لیے ڈٹی رہی۔ بیچ میں مجھے خیال آیا، ایسے ہی بے
کار کی بغاوت کر دی ہے، میں نے تو اپنے بال بھی نہیں بنائے۔
اس کے ساتھ اس کی ماں بھی آئی تھی اور بچھی جا رہی
تھی، جیسے بیٹوں کی شادی سے پہلے مائیں بچھتی ہیں۔ مجھے تو ایسے لگا جیسے وہ لڑکا
نہیں، اس کی ماں مجھ پہ مر مٹی ہے اور جانے مجھ میں اپنے ہوش کا کیا دیکھ رہی ہے؟
اس کی اپنی صحت بہت خراب تھی اور وہ اپنی کبھی کی خوبصورتی اور تندرستی کی باتیں
کر کے اپنے بیٹے کے لیے مجھے مانگ رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اسے اپنے
’’مال‘‘ پر بھروسہ نہیں… وہ بھکارن!کہہ رہی تھی لڑکوں کی خوبصورتی کس نے دیکھی ہے؟
لڑکے سب خوبصورت ہوتے ہیں۔ بس اچھے گھر کے ہوں، کماؤ ہوں… اور وہ اپنی ماں کی طرف
یوں دیکھ رہا تھا، جیسے وہ اس کے ساتھ کوئی بہت بڑا ظلم کر رہی ہے۔ میری ماں کے
کہنے پر وہ کچھ شرماتا ہوا میرے پاس آ کے بیٹھ گیا اور ’’باتیں کرو‘‘ کے حکم سے
مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ پہلے تو میں چُپ رہی اور جب بولی تو صرف یہ ثابت ہوا
کہ میں گونگی نہیں ہوں۔ سفید قمیص، سفید پتلون اور سفید ہی بوٹ پہنے وہ کرکٹ کا
کھلاڑی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ کیپٹن نہیں تو بیٹس مین ہو گا، نہیں بولر… بولر، جو
تھوڑا پیچھے ہٹ کر آگے آتا ہے۔ اور بڑے زور کے سسپنس سے گیند کو پھینکتا ہے اور
وکٹ صاف اُڑ جاتی ہے۔ ہاں بیٹس مین اچھا ہو تو چوکسی کے ساتھ گیند کو باؤنڈری سے
بھی پرے پھینک دیتا ہے، نہیں تو خود ہی آؤٹ۔
ماں کے اشارے پہ میں نے اس سے پوچھا ’’آپ چائے
پئیں گے؟‘‘
’’جی؟‘‘
اس نے چونک کر کہا اور پھر جیسے میری بات کہیں بھوگول کا چکر کاٹ کر اس کے دماغ
میں لوٹ آئی اور وہ بولا ’’آپ پئیں گی؟‘‘
میں ہنس دی — ’’میں نہ پیؤں گی تو کیا آپ نہیں
پئیں گے؟‘‘
’’آپ
پئیں گی تو میں بھی پی لوں گا۔‘‘
میں حیران ہوئی، کیوں کہ وہ بھی ایسا ہی تھا جیسے
میرے پاپا— ماں کے سامنے۔ لیکن ایسا تو بہت بعد میں ہوتا ہے، یہ شروع ہی میں ایسا
ہے۔
چائے بنانے کے لیے اُٹھی تو سامنے آئینے پر میری
نظر گئی—وہ مجھے جاتے دیکھ رہا تھا۔ میں نے ساری سے اپنے بدن کو چھپایا۔ اور پھر
مجھے اس بڈھے کے الفاظ یاد آ گئے— ’’آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں… دیکھنا کہیں
پولس تمھیں ہی پکڑ کر نہ لے جائے۔‘‘
بس، کچھ ہی دنوں میں میں پکڑی گئی۔ شادی ہو گئی
میری۔ میرے گھر کے لوگ—یوں تو بڑے آزاد خیال ہیں، لیکن دیدے پہ بٹھاتے ہوئے انھوں
نے جیسے مجھے بوری میں ڈال رکھا تھا تاکہ میرے ہاتھ پانو پر کسی کی نظر ہی نہ پڑے۔
میں پردے کو پسند کرتی ہوں، لیکن ایک حد تک۔ مثلاً گھونگھٹ مجھے بڑا اچھا لگتا ہے
لیکن صرف اتنا جس میں دکھائی بھی دے اور شرم بھی رہے۔ زندگی میں ایک ہی بار تو
ہوتا ہے کہ وہ دبے پانو آتا ہے اور کانپتے ہاتھوں سے اس گھونگھٹ کو اُٹھاتا ہے جسے
بیچ میں سے ہٹائے بنا پرماتما بھی نہیں ملتا۔
شادی کے ہنگامے میں میں نے تو کچھ نہیں دیکھا—کون
آیا، کون گیا؟ بس چھوٹے سولنکی میرے من میں سمائے ہوئے تھے۔ میں نے جو بھی کپڑا،
جو بھی زیور پہنا تھا، جو بھی افشاں چُنی تھی، انہی کی نظروں سے دیکھ کر۔ جیسے
میری اپنی نظریں ہی نہ رہی تھی؟ میں سب سے بچنا،سب سے چھُپنا چاہتی تھی تاکہ صرف
ایک کے سامنے کھُل سکوں، ایک پہ اپنا آپا وار سکوں۔ جب برات آئی تو میری فرینڈز نے
بہت کہا—بالکونی پر آ جاؤ، برات دیکھ لو۔ لیکن میں نے ایک ہی نہ پکڑ لی۔ میں نے
ایک روپ دیکھا تھا، جس کے بعد کوئی دوسرا روپ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
آخر میں نے سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھا۔ سب میرے
سواگت کے لیے کھڑے تھے۔ گھر کی عورتیں، مرد…بچوں کی ہنسی سنائی دے رہی تھی اور وہ
مجھے گھونگھٹ میں سے دھندلے دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔ سب رسمیں ادا ہوئیں، جیسی
کہ ہر شادی میں ہوتی ہیں۔ لیکن جانے کیوں مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میری شادی اور
ہے، میرا گھونگھٹ اور، میرا بر اور۔ گھر کے ایشٹ دیو کو ما تھا ٹکانے کے بعد میری
ساس مجھے اپنے کمرے میں لے گئی، تاکہ میں اپنے سسر کے پانو چھوؤں، ان سے اسیس لوں۔
کچھ اور شرماتے، کچھ اور سر جھکاتے ہوئے میں نے ان کے چرنوں کو ہاتھ لگایا۔ انھوں
نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے—
’’سو
تم — آ گئیں، بیٹی؟‘‘
میں نے تھوڑا چونک کر اس آواز کے مالک کی طرف
دیکھا اور ایک بار پھر ان کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ کچھ اور بھی آنسو ہوتے تو میں
اُن قدموں کو دھو دھو کر پیتی۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment