رباعیات
لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
لمحوں میں زمانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
تو زہر ہی دے شراب کہہ کر ساقی
جینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
٭٭٭
اک راہِ طویل اک کڑی ہے یارو
افتاد عجیب آ پڑی ہے یارو
کس سمت چلیں کدھر نہ جائیں آخر
دوراہے پہ زندگی کھڑی ہے یارو
٭٭٭
غنچے کی چٹک سنائی دے گی یارو
ساغر کی کھنک سنائی دے گی یارو
زنداں کا سکوت گونج اُٹھے گا جس سے
ایسی دستک سُنائی دے گی یارو
٭٭٭
پھولوں کی جبیں جھلس گئی ہے یارو
گلزار میں آگ بس گئی ہے یارو
گزرے ہیں کہاں سے رنگ و بو کے طوفاں
شبنم کو فضا ترس گئی ہے یارو
٭٭٭
اُڑتے پنچھی شکار کرنے والو
گلزار میں گیر و دار کرنے والو
کتنی کلیاں مَسل کے رکھ دیں تم نے
تزئینِ گل و بہار کرنے والو
٭٭٭
یہ دَورِ مے و جام چلے یا نہ چلے
نشے سے پھر بھی کام چلے یا نہ چلے
ہم اہلِ خرابات سے یوں بَیر نہ رکھ
ساقی کل ترا نام چلے یا نہ چلے
٭٭٭
یہ پھیلی ہوئی رات ڈھلے یا نہ ڈھلے
یہ یورشِ حالات ٹلے یا نہ ٹلے
روشن کر چراغِ دیر و کعبہ
پھر شمعِ خرابات جلے یا نہ جلے
٭٭٭
خوابوں میں خیال کھو رہے ہوں جیسے
نشے میں زمانے سو رہے ہوں جیسے
سینے سے ڈھلک گیا ہے کس کا آنچل
خورشید طلوع ہو رہے ہوں جیسے
No comments:
Post a Comment