سلامتی کونسل
پھر چلے ہیں مرے زخموں کا مداوا کرنے
میرے غمخوار اُسی فتنہ گرِ دہر کے پاس
جس کی دہلیز پہ ٹپکی ہیں لہو کی بوندیں
جب بھی پہنچا ہے کوئی سوختہ جاں کشتۂ یاس
جس کے ایوانِ عدالت میں فروکش قاتل
بزم آرا و سخن گسترو فرخندہ لباس
ہر گھڑی نعرہ زناں “امن و مساوات کی خیر”
زر کی میزان میں رکھے ہُوئے انسان کا ماس
کون اس قتل گہہِ ناز کے سمجھے اسرار
جس نے ہر دشنہ کو پھُولوں میں چھپا رکھا ہے
امن کی فاختہ اُڑتی ہے نشاں پر لیکن
نسلِ انساں کو صلیبوں پہ چڑھا رکھا ہے
اس طرف نطق کی بارانِ کرم اور ادھر
کاسۂ سر سے مناروں کو سجا رکھا ہے
جب بھی آیا ہے کوئی کشتۂ بیداد اُسے
مرہمِ وعدۂ فردا کے سوا کچھ نہ ملا
یہاں قاتل کے طرفدار ہیں سارے قاتل
کاہشِ دیدۂ پُر خوں کا صلہ کچھ نہ ملا
کامر کوریا ویت نام دومنکن کانگو
کسی بسمل کو بجز حرفِ دعا کچھ نہ ملا
قصرِ انصاف کی زنجیر ہلانے والو
کجکلاہوں پہ قیامت کا نشہ ہے طاری
اپنی شمشیر پہ کشکول کو ترجیح نہ دو
دم ہو بازو میں تو ہر ضربِ جنوں ہے کاری
اس جزیرہ میں کہیں نور کا مینار نہیں
جس کے اطراف میں اک قلزمِ خوں ہے جاری
“جوہرِ جامِ جم از کانِ جہانِ دگراست
تُو توقّع زگلِ کوزہ گراں می داری”
No comments:
Post a Comment