شاید جگہ نصیب ہو اُس گُل کے ہار میں
میں پھُول بن کے آؤں گا، اب کی بہار میں
خَلوَت
خیالِ یار سے ہے انتظار میں
آئیں فرشتے لے کے اِجازت مزار میں
ہم
کو تو جاگنا ہے ترے انتظار میں
آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں
اے
درد! دل کو چھیڑ کے، پھر بار بار چھیڑ
ہے چھیڑ کا مزہ خَلِشِ بار بار میں
ڈرتا ہوں، یہ تڑپ کے لحد کو اُلٹ نہ دے
ہاتھوں سے دِل دبائے ہوئے ہُوں مزار میں
تم نے تو ہاتھ جور و سِتم سے اُٹھا لیا
اب
کیا مزہ رہا سِتمِ روزگار میں
اے پردہ دار! اب تو نکل آ، کہ حشر ہے
دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں
عمرِ دراز، مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
سیمابؔ
پھول اُگیں لحدِ عندلیب سے
اتنی تو تازگی ہو، ہوائے بہار میں
No comments:
Post a Comment