اب کیا بتائیں عمرِ وفا کیوں خراب کی
نوحہ ہے زندگی کا کہانی شباب کی
تم نے
خبر نہ لی مِرے حالِ خراب کی
کالی ہوئیں فراق میں راتیں شباب کی
تھی
الوداعِ ہوشِ تجلّیِ مختصر
میرا تو کام کر گئی جنْبش نقاب کی
وہ میرے
ساتھ ساتھ مُجسّم تِرا خیال
وہ جنگلوں میں سیر شبِ ماہتاب کی
ممنُون
ہوں تِری نگہِ بے نیاز کا
رُسوائیاں تو ہیں مِرے حالِ خراب کی
میں اپنی جلوہ گاہِ تصوّر سجاؤں گا
تصویر کھینچ دے کوئی اُن کے شباب کی
دے دو
غبارِ دل میں ذرا سی جگہ ہمیں
تربت بنائیں گے دلِ خانہ خراب کی
گھبرا کے
جس سے چیخ اُٹھا عالَمِ وجُود
وہ چیز دل نے میرے لئے اِنتخاب کی
چمکیں تو خوفناک، گِریں تو حیات سوز
ساون کی بجلیاں ہیں نگاہیں عتاب کی
سیماب
زندگی کی ہے تاریخ ہر غزل
ہر شعر میں ہے ایک کہانی شباب کی
No comments:
Post a Comment