سورہ
نبأ
مشرکین مکہ
استہزاء و تمسخر کے طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو اور قرآن کریم کو ’’النبأ العظیم‘‘ یعنی ’’بڑی خبر‘‘ کہتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعی بڑی اور عظیم الشان خبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ کی
بات لیکر فرمایا کہ اس ’’بڑی خبر‘‘ پر تعجب یا
انکار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عنقریب اس کی حقیقت کا علم ہوجائے گا۔ پھر اس
پر کائناتی شواہد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود چیزیں
جن کی تخلیق انسانی نقطۂ نظر سے زیادہ مشکل اور عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی
تخلیق فرمائی ہے اور ایسی طاقت و قدرت رکھنے والے اللہ کے لئے انسانوں کو دوبارہ
پیداکرنا کون سا مشکل کام ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگر یہ برحق بات ہے تو
آج مردے زندہ کیوں نہیں ہوتے؟ ہر چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لئے وقت متعین ہوتا
ہے۔ وہ چیز اپنے موسم اور وقت متعین میں آموجود ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد زندہ ہونے
کا ’’موسم‘‘ اور وقت متعین یوم الفصل (فیصلہ کا دن) ہے لہٰذا
یہ کام بھی اس وقت ظاہرہوجائے گا۔ پھر جہنم کی عبرتناک سزائوں اور جنت کی دل آویز
نعمتوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال اور فرشتوں جیسی مقرب شخصیات کی
قطار اندر قطار حاضری اور بغیر اجازت کسی قسم کی بات کرنے سے گریز کو بیان کرکے
بتایا کہ آخرت کے عذاب کی ہولناکی اور خوف کافروں کو یہ تمنا کرنے پر مجبور کردے
گا کہ کاش ہم دوبارہ پیدا ہی نہ کئے جاتے اور جانوروں کی طرح پیوندِ خاک ہوکر عذاب
آخرت سے نجات پاجاتے۔
سورہ
نازعات
اس سورت کا
مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اثبات ہے۔ ابتداء ان فرشتوں سے کی گئی ہے جو
اس کائنات کے معاملات کو منظم طریقے پر چلانے اور نیک و بد انسانوں کی روح قبض
کرنے پر مامور ہیں۔ پھر مشرکین مکہ کے اعتراض کے جواب میں قیامت کی ہولناکی اور
بغیر کسی مشکل کے اللہ کے صرف ایک حکم پر قبروں سے نکل کر باہر آجانے کا تذکرہ
اور اس پر واقعاتی شواہد پیش کئے گئے ہیں جو اللہ فرعون جیسے ظالم و جابر کو حضرت
موسیٰ علیہ السلام جیسے وسائل سے محروم شخص کے ہاتھوں شکست سے دوچار کرکے سمندر
میں غرق کرسکتا ہے اور آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق کو وجود میں لاسکتا ہے وہ
انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ پھر جنت و جہنم کے تذکرہ اور صبح
وشام کسی بھی وقت قیامت اچانک قائم ہوجانے کے اعلان پر سورت کا اختتام عمل میں
لایاگیا ہے۔
سورہ
عبس
سرداران قریش
کے مطالبہ پر حضور علیہ السلام ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو
کررہے تھے کہ ان کے اسلام قبول کرلینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ
اسلام ہوجائیں گے۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی
آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال
سے ناواقف تھے۔ حضور علیہ السلام کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا جس پر اللہ تعالیٰ
نے سورت نازل فرمائی۔ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑلیا۔ جو استغناء کے
ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں ہے اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور جو اللہ کی خشیت
سے متأثر ہوکر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔
یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی
نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ غریب علاقوں کو
نظرانداز کرکے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو
مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔ انسان اگر پہلی
مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔
ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا
ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاء اور پانی میں منتشر اجزاء کو پھلوں سبزیوں کی شکل دے
کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر
اجزاء کو دوبارہ جمع کرکے انسان بناکر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر
قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کرکے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام
ذکر فرماکر سورت کو اختیام پذیر کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment