سورۃ التین
تین مقامات
مقدسہ کی قسم کھائی کہ جس طرح طور، بیت المقدس اور مکہ مکرمہ کو ’’وحی‘‘ کے ساتھ اعزاز و شرف عطاء فرمایا اسی طرح کائنات
کی تمام مخلوقات میں انسان کو ’’شاہکار قدرت‘‘ بنا کر حسین و
جمیل اور بہترین شکل و صورت کے اعزاز و اکرام سے نواز اہے۔ اس کی حیثیت کو چار
چاند لگ جاتے ہیں جب یہ ایمان اور اعمال صالحہ سے اپنی زندگی کو مزین کرلیتا ہے
اور اگر کفر اور تکذیب کا راستہ اپناتا ہے تو عزو افتخار کی بلندیوں سے قعرِ مذلت
میں جاگرتا ہے۔
سورۃ العلق
پہلی وحی میں
نازل ہونے والی پانچ آیتیں اس سورت کی ابتداء میں شامل ہیں جن میں قرآنی نصاب
تعلیم کے خدو خال واضح کرکے انسان کی سرکشی کے اسباب سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور
ابو جہل ملعون کی بدترین حرکت کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ کو اور اپنی حقیقت کو
فراموش نہ کرنا قرآنی نصاب تعلیم کی بنیاد ہے اور مجہولات کو معلومات کی شکل میں
تبدیل کرنا اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ ’’فرعون ہذہ الامۃ‘‘ ابوجہل کی
سرکشی اور تکبر کی انتہاء کو بیان کیا کہ محمد علیہ السلام کو نماز جیسے عظیم
الشان عمل کی ادائیگی سے روکنے اور آپ کا مبارک سر اپنے ناپاک قدموں کے نیچے
کچلنے کی پلاننگ کرتا تھا۔ نازیبا حرکت سے باز نہ آنے کی صورت میں اسے جہنمی فوج
کے ہاتھوں گرفتار کراکے اس کی جھوٹی اور گناہوں سے آلودہ پیشانی کے بالوں سے
گھسیٹ کر جہنم رسید کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اور ساتھ ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو ایسے سرکش و نافرمانوں کی اطاعت کی بجائے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اس
کا تقرب حاصل کرتے رہنے کی تلقین ہے۔
No comments:
Post a Comment