دیتاں
گرتے ستاروں کے آس پاس کہیں
گریٹ آئیڈیاز
اور ان میں گھرا ہوا ولیم جیمز
اس کے لڑکپن میں
پہاڑ بھاگتے تھے
جنگل بہتے تھے
بہتے جنگلوں میں نہاتی بطخوں کا پیچھا کرتے ہوئے
ہم
دھوئیں کے فلیٹوں تک پہنچ گئے
ان تمام صدیوں کے دوران
اس چھری نے کئی چہرے بدلے
جسے پہلی بار ہم نے
سبزی کے تھال میں دیکھا تھا
انکوائری
کیوں گھومنے والی کرسی پر
اُڑتا ہوا بادل جا بیٹھا
کیوں کمپیوٹر کے کیبن میں
پھیلا ہوا جنگل جا بیٹھا
چھوٹے چھوٹے چا لاکوں میں
کیوں بڑا سا پاگل جا بیٹھا
نئے شہروں کی بنیاد
ان کی بارگاہ میں
جنگل کے شیر
جاروب کشی کرتے ہیں
موت نے ان سے وعدہ کیا تھا
آگ نہیں جلائے گی
ساتویں نسل تک
لیکن میں ہوں
آٹھویں نسل میں
میں نے ان کی سفید خو شبو کو محسوس کیا ہے
ان کی دستار کا
ایک سِرا مشرق میں گم ہے
ایک سِرا ایک اور مشرق میں گم ہے
وہ سورج کے آگے آگے قبا پہن کر چلتے ہیں
ہم اپنی حدوں میں سمٹے ہوئے
انھیں دیکھتے ہیں
اور کہتے ہیں
نئے شہروں کی بنیاد وہی رکھتے ہیں
جو جنگل کے شیروں کو
جاروب کشی پر مامور کر دیں
ہم تو
اپنے گھوڑوں کی گردن پر
باگ بھی نہیں چھوڑ سکتے
ڈپریشن کی شام
گردنوں کو لپٹے ہوئے
السیشن
سانس کی نالیوں میں اتارے ہوئے
ٹیوب
صدقے کی راس بیچنے والا
قندھار گُل
زخموں کی گیلری میں
چھینٹے
پا ئینچے
انگارے
کو بالٹ ریز اور وارڈ بوائے کی ٹوکے سنگم پر
آخری اسٹریچر
خانم جان
مٹّی کا بدن
ناچے تو کرن
وہ روشنیوں میں ناچنے والی
خانم جان
اس کے ہاتھوں کی بدلی میں
میرے باز
اپنا آنگن بھول گئے
میں نے کہا
میں نے تیری دو آنکھوں میں
کتنے بسترپینٹ کیے
جس وقت یہ کمرا چھوڑوں گا
اپنے سارے خواب
تجھ سے واپس لے لوں گا
اس نے کہا
آؤ صبح سے پہلے
ہم تم
پچھلے ایک برس میں مرنے والوں کے فوٹو دیکھیں
بُوچر
پتّھر گرا
پتّھر گرا
ہا۔۔ہا۔۔ہا
کوئی تارا ہو گا
ٹوٹ کر گرا ہو گا
تارے جب ٹوٹ کر گرتے ہیں
تو ایسی ہی عجیب آوازیں آتی ہیں
فرّاش سے کہو
دن نکلنے سے پہلے ہی پہلے
اسے اٹھا کر مز بلے پر ڈال آئے
صبح کو
بلدیہ کی گاڑی آئے گی
تو وہ اسے لے جائیں گے
اور اس کی کھال اُتار کے بیچ ڈالیں گے
ہا۔۔ہا۔۔ہا
ریت کا شہر
مجھے اپنے شہر سے پیا ر ہے
نہ سہی اگر مرے شہر میں
کوئی کوہِ سر بہ فلک نہیں
کہیں برف پوش بلندیوں کی جھلک نہیں
یہ عظیم بحر
جو میرے شہر
کے ساتھ ہے
مری ذات ہے
بانہوں میں شام لپیٹے
جب تو مجھ سے ملتی ہے
تیری سانس میں
ایک نہ ایک
زہر کی لہر
کم ہوتی ہے
سُن ری سجنی
جنم جنم سے ایک شریر
آدھا تیرا
آدھا میرا
تو مر جائے تو سارا میرا
بینچ
گلہریوں میں سانپ
رینگنے لگے
شہد چوسنے والیاں
سفر سے لوٹنے والیاں
بینچ
آکاش بیل
شیرنی کے پاؤں میں
الجھ رہی ہے
پٹریاں
لیٹی ہوئی
اک دوسرے کو دیکھتی ہیں
کیا ہم
ٹرین کے انتظار میں
بینچ
ہو جائیں گے
ہوا کا لڑکا
ہوا کے چھوٹے لڑکے نے
اسٹیچو سے کود کے
شائیں شائیں
دھوپ کو اڑا دیا
شور کو الٹا دیا
بادل کو
سوئمنگ پول میں
کھینچ لیا
لان میں لہریے پھیل گئے
فواروں کا پانی
کانپنے لگا
دریا میں موٹر بوٹ
کب چلے گی
شائیں شائیں شائیں
دروازہ کھول دو
رات کا شریک
بادل اوڑھ سڑک پر دوڑے
گھنے خیالوں میں غرائے
خواب کے بیچ میں بیٹھ کے سوچے
نیند کے اوپر حرف بچھائے
میں صدیوں کی آنکھیں مانگوں
وہ منٹوں کی فلم دکھائے
ایش ٹرے میں شہر بسائے
سورج سے سگریٹ سلگائے
کھل جائے تو کاٹ ہی کھائے
بہار میرے لئے احمق کا
خوفناک قہقہہ لائی
راں بو
کی ایک سطر
گلابی زمین پر لیٹنے والی
اب کی بارش میں
جب میں اس کی فاختہ کو
کچی نیند میں جگاؤں
تم اسے
ہرے چراغوں کے درمیان
تلاش کرنا
امپوسٹر
کمرے میں بلب
آنگن میں اندھیرا
آنگن میں بلب
کمرے میں اندھیرا
تو پھر اس نقطۂ نہفتہ کا تعین
کہ جس نقطۂ نہفتہ سے
اندرون بھی روشن
بیرون بھی روشن
ایسی کوئی جگہ ہو گی تو سہی
پر مجھے اس کا علم نہیں
علم نہیں تو جستجو
جستجوئے نقطۂ نہفتہ
جنریشن گیپ
فلیٹوں کے پیچھے
گئے سال کی بارشیں
دھوپ شانوں پہ لٹکائے
بیٹھی ہیں
خاکروبوں سے کہہ دو
کسی ڈسٹ بن سے
زندہ لمحے کے رونے کی آواز
آئے تو
ہم کو بتانا
سائن آپریٹر
کسی رات کو
آخری شو کے بعد
سیلو لائیڈ کی گہرائیوں سے اچھل کر
وہ سب
ہال میں بھر نہ جائیں
کس کس کا میک اپ
اتاروں گا میں
لورکا سے ایک بند
ایک تھا گھوڑا بہت بڑا
جو پانی سے ڈرتا تھا
وہ کالا کالا پانی
گھنے درختوں کے نیچے
پل کے پاس
ٹھہر ٹھہر کے گاتا تھا
کسے خبر ہے
چشمے نے
ہرے بھرے میدانوں کے
لمبے چوڑے ہاتھوں میں
کیا رکھا تھا
ڈاکٹر فانچو
کسی روز میں شہر کے پاگلوں کو ڈنر پر بلاؤں گا
ان سے کہوں گا کہ
اے دوستو ، دشمنو، مہربانو، کمینو
یہ مانا کہ تم کہکشاں کے جراثیم ہو
اور سب راستے روم ہی کو گئے ہیں
مگر اب
اٹالی سے آتی ہوئی اک سڑک کے سپاہی کی سیٹی سنو
جو کہتی ہے تم مرچکے ہو
نہیں تو میں چلتی ہوئی کار سے کود کر اپنے بتیس دانتوں
کو فٹ پاتھ پر
ڈاکٹر فانچو کے حوالے کر دوں گا
ایک رومانی قصے کا عنوان
قبرستان کی
بوڑھی چیل
ہنسی
نیلی آندھی کا آنچل تھامے
وہ
اک مردہ عورت کے سرہانے
پھول چڑھانے
آیا تھا
پھر موسم کی پہلی بارش ٹوٹ پڑی
ٹوٹی پھوٹی لاشیں
کٹی پھٹی قبروں سے نکلیں
میں تیری محبوبہ ہوں
میں تیری محبوبہ ہوں
ایسا بھی ایک توتا
اس روز جب ہم
ٹھنڈ پڑے گارڈن میں گئے
تو موسمی کی چھاؤں میں سورج
اور سنگترے کے سائے میں چاند
زہریلی نیند سو چکا تھا
اور اِن وزیبل کینو کے رس کا آخری قطرہ
مردہ بستیوں کو عبور کرنے والے
توتے کی مڑی ہوئی چونچ کے ڈھلوان پر
سلگ رہا تھا
ایکسیڈنٹ
ہر روز یہ بس
اسی طرف سے
جاتی تھی
کوئی شریف لڑکی
اسکول جا رہی ہو جیسے
مگر آج
فٹ پاتھ پہ کیوں چڑھی کھڑی ہے
اس پیڑ میں کیوں اڑی پڑی ہے
کالی ریت
مٹیالی راتوں کا پانی
کالے بستروں پر بہتا ہے
تم نے سمندر کے کنارے بستروں کا خواب دیکھا
اور اپنے فیصلے میں ظاہر ہو گئیں
پھر وہ بندرگاہ خالی ہو گئی
جس پر
دو شاخیں لہراتی ہیں
اور
ایک پتھر چمکتا ہے
میں ان بارشوں کو تھمتا ہوا دیکھتا ہوں
جن کی
برہنگی میں ہم سمندروں تک جاتے تھے
اور نیکیاں تلاش کرتے تھے
شاید گلاب شاید کبوتر
پھر کیا ہوا
پھر یوں ہوا
کہ اس کی ایک آنکھ سے چمگادڑ نے چھلانگ لگائی
اور ایک آنکھ سے پھڑ پھڑاتا ہوا خارپشت نکلا
پھر جو وہ ایک دوسرے پر جھپٹے ہیں
تو ایسے جھپٹے
کہ منڈیریں کبوتروں سے
اور کیاریاں گلابوں سے
بھر گئیں
اس دن کے بعد ہم نے مداری کو کبھی نہیں دیکھا
اچھا اب تم
میرے لئے پان لگا دو
اور اچھے خوابوں پہ دھیان جما کے
سو جاؤ
دیتاں
گرتے ستاروں کے آس پاس کہیں
گریٹ آئیڈیاز
اور ان میں گھرا ہوا ولیم جیمز
اس کے لڑکپن میں
پہاڑ بھاگتے تھے
جنگل بہتے تھے
بہتے جنگلوں میں نہاتی بطخوں کا پیچھا کرتے ہوئے
ہم
دھوئیں کے فلیٹوں تک پہنچ گئے
ان تمام صدیوں کے دوران
اس چھری نے کئی چہرے بدلے
جسے پہلی بار ہم نے
سبزی کے تھال میں دیکھا تھا
انکوائری
کیوں گھومنے والی کرسی پر
اُڑتا ہوا بادل جا بیٹھا
کیوں کمپیوٹر کے کیبن میں
پھیلا ہوا جنگل جا بیٹھا
چھوٹے چھوٹے چا لاکوں میں
کیوں بڑا سا پاگل جا بیٹھا
نئے شہروں کی بنیاد
ان کی بارگاہ میں
جنگل کے شیر
جاروب کشی کرتے ہیں
موت نے ان سے وعدہ کیا تھا
آگ نہیں جلائے گی
ساتویں نسل تک
لیکن میں ہوں
آٹھویں نسل میں
میں نے ان کی سفید خو شبو کو محسوس کیا ہے
ان کی دستار کا
ایک سِرا مشرق میں گم ہے
ایک سِرا ایک اور مشرق میں گم ہے
وہ سورج کے آگے آگے قبا پہن کر چلتے ہیں
ہم اپنی حدوں میں سمٹے ہوئے
انھیں دیکھتے ہیں
اور کہتے ہیں
نئے شہروں کی بنیاد وہی رکھتے ہیں
جو جنگل کے شیروں کو
جاروب کشی پر مامور کر دیں
ہم تو
اپنے گھوڑوں کی گردن پر
باگ بھی نہیں چھوڑ سکتے
ڈپریشن کی شام
گردنوں کو لپٹے ہوئے
السیشن
سانس کی نالیوں میں اتارے ہوئے
ٹیوب
صدقے کی راس بیچنے والا
قندھار گُل
زخموں کی گیلری میں
چھینٹے
پا ئینچے
انگارے
کو بالٹ ریز اور وارڈ بوائے کی ٹوکے سنگم پر
آخری اسٹریچر
خانم جان
مٹّی کا بدن
ناچے تو کرن
وہ روشنیوں میں ناچنے والی
خانم جان
اس کے ہاتھوں کی بدلی میں
میرے باز
اپنا آنگن بھول گئے
میں نے کہا
میں نے تیری دو آنکھوں میں
کتنے بسترپینٹ کیے
جس وقت یہ کمرا چھوڑوں گا
اپنے سارے خواب
تجھ سے واپس لے لوں گا
اس نے کہا
آؤ صبح سے پہلے
ہم تم
پچھلے ایک برس میں مرنے والوں کے فوٹو دیکھیں
بُوچر
پتّھر گرا
پتّھر گرا
ہا۔۔ہا۔۔ہا
کوئی تارا ہو گا
ٹوٹ کر گرا ہو گا
تارے جب ٹوٹ کر گرتے ہیں
تو ایسی ہی عجیب آوازیں آتی ہیں
فرّاش سے کہو
دن نکلنے سے پہلے ہی پہلے
اسے اٹھا کر مز بلے پر ڈال آئے
صبح کو
بلدیہ کی گاڑی آئے گی
تو وہ اسے لے جائیں گے
اور اس کی کھال اُتار کے بیچ ڈالیں گے
ہا۔۔ہا۔۔ہا
ریت کا شہر
مجھے اپنے شہر سے پیا ر ہے
نہ سہی اگر مرے شہر میں
کوئی کوہِ سر بہ فلک نہیں
کہیں برف پوش بلندیوں کی جھلک نہیں
یہ عظیم بحر
جو میرے شہر
کے ساتھ ہے
مری ذات ہے
سانپ والی
بانہوں میں شام لپیٹے
جب تو مجھ سے ملتی ہے
تیری سانس میں
ایک نہ ایک
زہر کی لہر
کم ہوتی ہے
سُن ری سجنی
جنم جنم سے ایک شریر
آدھا تیرا
آدھا میرا
تو مر جائے تو سارا میرا
بینچ
گلہریوں میں سانپ
رینگنے لگے
شہد چوسنے والیاں
سفر سے لوٹنے والیاں
بینچ
آکاش بیل
شیرنی کے پاؤں میں
الجھ رہی ہے
پٹریاں
لیٹی ہوئی
اک دوسرے کو دیکھتی ہیں
کیا ہم
ٹرین کے انتظار میں
بینچ
ہو جائیں گے
ہوا کا لڑکا
ہوا کے چھوٹے لڑکے نے
اسٹیچو سے کود کے
شائیں شائیں
دھوپ کو اڑا دیا
شور کو الٹا دیا
بادل کو
سوئمنگ پول میں
کھینچ لیا
لان میں لہریے پھیل گئے
فواروں کا پانی
کانپنے لگا
دریا میں موٹر بوٹ
کب چلے گی
شائیں شائیں شائیں
دروازہ کھول دو
رات کا شریک
بادل اوڑھ سڑک پر دوڑے
گھنے خیالوں میں غرائے
خواب کے بیچ میں بیٹھ کے سوچے
نیند کے اوپر حرف بچھائے
میں صدیوں کی آنکھیں مانگوں
وہ منٹوں کی فلم دکھائے
ایش ٹرے میں شہر بسائے
سورج سے سگریٹ سلگائے
کھل جائے تو کاٹ ہی کھائے
بہار میرے لئے احمق کا
خوفناک قہقہہ لائی
راں بو
کی ایک سطر
گلابی زمین پر لیٹنے والی
اب کی بارش میں
جب میں اس کی فاختہ کو
کچی نیند میں جگاؤں
تم اسے
ہرے چراغوں کے درمیان
تلاش کرنا
امپوسٹر
کمرے میں بلب
آنگن میں اندھیرا
آنگن میں بلب
کمرے میں اندھیرا
تو پھر اس نقطۂ نہفتہ کا تعین
کہ جس نقطۂ نہفتہ سے
اندرون بھی روشن
بیرون بھی روشن
ایسی کوئی جگہ ہو گی تو سہی
پر مجھے اس کا علم نہیں
علم نہیں تو جستجو
جستجوئے نقطۂ نہفتہ
جنریشن گیپ
فلیٹوں کے پیچھے
گئے سال کی بارشیں
دھوپ شانوں پہ لٹکائے
بیٹھی ہیں
خاکروبوں سے کہہ دو
کسی ڈسٹ بن سے
زندہ لمحے کے رونے کی آواز
آئے تو
ہم کو بتانا
سائن آپریٹر
کسی رات کو
آخری شو کے بعد
سیلو لائیڈ کی گہرائیوں سے اچھل کر
وہ سب
ہال میں بھر نہ جائیں
کس کس کا میک اپ
اتاروں گا میں
لورکا سے ایک بند
ایک تھا گھوڑا بہت بڑا
جو پانی سے ڈرتا تھا
وہ کالا کالا پانی
گھنے درختوں کے نیچے
پل کے پاس
ٹھہر ٹھہر کے گاتا تھا
کسے خبر ہے
چشمے نے
ہرے بھرے میدانوں کے
لمبے چوڑے ہاتھوں میں
کیا رکھا تھا
ڈاکٹر فانچو
کسی روز میں شہر کے پاگلوں کو ڈنر پر بلاؤں گا
ان سے کہوں گا کہ
اے دوستو ، دشمنو، مہربانو، کمینو
یہ مانا کہ تم کہکشاں کے جراثیم ہو
اور سب راستے روم ہی کو گئے ہیں
مگر اب
اٹالی سے آتی ہوئی اک سڑک کے سپاہی کی سیٹی سنو
جو کہتی ہے تم مرچکے ہو
نہ
یں تو میں چلتی ہوئی کار سے کود کر اپنے بتیس دانتوں
کو فٹ پاتھ پر
ڈاکٹر فانچو کے حوالے کر دوں گا
ایک رومانی قصے کا عنوان
قبرستان کی
بوڑھی چیل
ہنسی
نیلی آندھی کا آنچل تھامے
وہ
اک مردہ عورت کے سرہانے
پھول چڑھانے
آیا تھا
پھر موسم کی پہلی بارش ٹوٹ پڑی
ٹوٹی پھوٹی لاشیں
کٹی پھٹی قبروں سے نکلیں
میں تیری محبوبہ ہوں
میں تیری محبوبہ ہوں
ایسا بھی ایک توتا
اس روز جب ہم
ٹھنڈ پڑے گارڈن میں گئے
تو موسمی کی چھاؤں میں سورج
اور سنگترے کے سائے میں چاند
زہریلی نیند سو چکا تھا
اور اِن وزیبل کینو کے رس کا آخری قطرہ
مردہ بستیوں کو عبور کرنے والے
توتے کی مڑی ہوئی چونچ کے ڈھلوان پر
سلگ رہا تھا
ایکسیڈنٹ
ہر روز یہ بس
اسی طرف سے
جاتی تھی
کوئی شریف لڑکی
اسکول جا رہی ہو جیسے
مگر آج
فٹ پاتھ پہ کیوں چڑھی کھڑی ہے
اس پیڑ میں کیوں اڑی پڑی ہے
کالی ریت
مٹیالی راتوں کا پانی
کالے بستروں پر بہتا ہے
تم نے سمندر کے کنارے بستروں کا خواب دیکھا
اور اپنے فیصلے میں ظاہر ہو گئیں
پھر وہ بندرگاہ خالی ہو گئی
جس پر
دو شاخیں لہراتی ہیں
اور
ایک پتھر چمکتا ہے
میں ان بارشوں کو تھمتا ہوا دیکھتا ہوں
جن کی
برہنگی میں ہم سمندروں تک جاتے تھے
اور نیکیاں تلاش کرتے تھے
شاید گلاب شاید کبوتر
پھر کیا ہوا
پھر یوں ہوا
کہ اس کی ایک آنکھ سے چمگادڑ نے چھلانگ لگائی
اور ایک آنکھ سے پھڑ پھڑاتا ہوا خارپشت نکلا
پھر جو وہ ایک دوسرے پر جھپٹے ہیں
تو ایسے جھپٹے
کہ منڈیریں کبوتروں سے
اور کیاریاں گلابوں سے
بھر گئیں
اس دن کے بعد ہم نے مداری کو کبھی نہیں دیکھا
اچھا اب تم
میرے لئے پان لگا دو
اور اچھے خوابوں پہ دھیان جما کے
سو جاؤ
No comments:
Post a Comment