بدن میں
اتریں تکھن کے سائے تو نیند آئے
یہ دل کہانی کوئی سنائے تو نیند آئے
بجھی بجھی رات کی ہتھیلی پہ مسکرا کر
چراغ ِ وعدہ کوئی جلائے تو نیند آئے
ہوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اجاڑتا ہے
دیے کی لو خود سے تھرتھرائے تو نیند آئے
تمام شب جاگتی خموشی نے اس کو سوچا
وہو زیر لب گنگنائے تو نیند آئے
بس اک آنسو بہت ہے رات جاگنے کو
یہ اک ستارہ کوئی بجھائے تو نیند آئے
یہ دل کہانی کوئی سنائے تو نیند آئے
بجھی بجھی رات کی ہتھیلی پہ مسکرا کر
چراغ ِ وعدہ کوئی جلائے تو نیند آئے
ہوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اجاڑتا ہے
دیے کی لو خود سے تھرتھرائے تو نیند آئے
تمام شب جاگتی خموشی نے اس کو سوچا
وہو زیر لب گنگنائے تو نیند آئے
بس اک آنسو بہت ہے رات جاگنے کو
یہ اک ستارہ کوئی بجھائے تو نیند آئے
احمد
فراز
No comments:
Post a Comment