ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں
ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اس کے بھی ارمان میں ہے
ایک ضرب اور بھی اے زندگیِ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مری جان میں ہے
میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا
تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے
فاصلے قرب کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
میں ترے شہر سے دُور اور تُو مرے دھیان میں ہے
سرِ دیوار فروزاں ہے ابھی ایک چراغ
اے نسیمِ سحری! کچھ ترے امکان میں ہے
دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے گاہے گاہے
جسےد اب بھی تری آواز مرے کان میں ہے
خلقتِ شہر کے ہر ظلم کے با وصف فرازؔؔ
ہائے وہ ہاتھ کہ اپنے ہی گریبان میں ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment