پھر رہ-
عشق وہی زاد- سفر مانگے ہے
وقت پھر قلب- تپاں دیدۂ تر مانگے ہے
سجدے مقبول
نہیں بار گہۂ ناز میں اب
آستاں حسن کا،سجدے نہیں،سر مانگے ہے
کس نے
پہنچا دیا اس ہوش ربا وادی میں
کہ جہاں وحشت- دل،زاد- سفر مانگے ہے
میری دنیا
کے تقاضوں ہی پہ موقوف نہیں
دین
بھی ایک نیا فکر و نظر مانگے ہے
عشق کو
زاویۂ دید بدلنا ہوگا----!!
جلوۂ حسن، نیا ذوق- نظر مانگے ہے
سب کی آنکھوں
سے بچا کر جو کبھی لوٹے تھے
وقت ہر چور سے وہ لعل و گہر مانگے ہے
دین و دنیا
ہو، کہ ہو عشق و ہوس اے ساغر
ہر کوئی خون- جگر، خون- جگر مانگے ہے
)ساغر نظامی )
No comments:
Post a Comment