رقصِ ہجرت
میں کوئی دن کے لئے پھرتا ہوں میں
آشیاں یوں ہے کہ دو تنکے لئے پھرتا ہوں میں
پوچھتے کیا
ہو میاں اس کاروبارِ شوق کی
دربدر دل ایسے کم ِسن کیلئے پھرتا ہوں میں
موج میں آتی ہے جب حسرت طوافِ یار کی
دائروں میں پھر کئی دن کے لئے
پھرتا ہوں میں
کاش اُن آنکھوں کو خوش آئے مری دیوانگی
عشق بن کر چار سُو جن کیلئے
پھرتا ہوں میں
کون جانے کب تلاشِ آگہی آسان ہو
مجھ کو کیا معلوم کس دن کیلئے
پھرتا ہوں میں
کون سنتا ہے محبت کا سخن بازار میں
ریختے کچھ میر و مومن کے، لئے
پھرتا ہوں میں
لے چلا اک اجنبی مجھ کو ہجومِ شہر سے
کچھ خبر انکی نہیں جن کیلئے
پھرتا ہوں میں
عمر ناکافی ہے شرحِ پیکرِ دلدار کو
کب سے تفسیرِ مَحاسِن کیلئے
پھرتا ہوں میں
راستے کھُل کر نہیں کھُلتے سعیدؔ اس دشت میں
اک نئی دنیا نئے دن کیلئے پھرتا ہوں میں
سعیدؔ خان
No comments:
Post a Comment