دور- صبوحی
شعلۂ مینا رقصاں چھاؤں میں تاروں کی
پیر- مغاں نے جام اٹھایا عید ہوئی مے خواروں کی
کتنے ہی در
کھل جائیں گے جوش- جنوں کو بڑھنے دو
بند رہے گا کیا در- زنداں خیر نہیں دیواروں کی
کافر- عشق
سمجھ کر ہم کو کتنے طوفاں اٹھتے ہیں
دل کی بات کو کس سے کہہ دیں بستی ہے دیں داروں کی
پاس- ادب
سے اک اک کانٹا ہم نے چنا ہے پلکوں سے
آخر کچھ تعظیم تھی لازم دشت- وفا کے خاروں کی
کتنے دکھ
کے دن بیتے ہیں اس کا بھی تھا ہوش کہاں
اپنے حال کو کچھ سمجھا ہوں صورت سے غم خواروں کی
زلف-
پریشاں راز کی جویا باد- صبا یکسر غماز
بات تری خلوت تک پہنچی ہم وحشی آواروں کی
موسم- گل
کی رعنائی نے دشت میں ڈیرے ڈالے ہیں
تم بھی روش اب گھر سے نکلو رت آئی ہے بہاروں کی
روش صدیقی
No comments:
Post a Comment