سُرمئی آنکھ ہے، رنجیدہ ہے مخمور بھی ہے
چاند سے رُخ پہ اداسی ہے، وہ رنجور بھی ہے
الجھی زلفیں ہیں کہ چِلّاتی ہوئی ظُلمتِ شب
جن میں کچھ دردِ زبوں حال سا محصور بھی ہے
جانے کس کرب کے عالم سے گزر کر آئے
جسم بوجھل سا ہے، لہجہ ذرا معذور بھی ہے
زندگی نام تو ہی گردشِ حالات کا ہے
راہِ فرحت میں اگر دُکھ کوئی مقدور بھی ہے
اہلِ دل جیتے ہیں ہر دور میں،نشتر سہہ کر
زخم کھا کر بھی جگر شاد ہے، معمور بھی ہے
چھوڑ دیں گے انا، تجھ سے ہے مشروط
اگر تو جو چاہے تو ہمیں شرط یہ منظور بھی ہے
عشق کی راہ میں گھائل تو ہوئے ہیں ہم بھی
ہاں مگر قلب معطر بھی ہے، مسرور بھی ہے
ہم نبھائیں گے ہر اِک حال میں، پیمانِ وفا
نسبتِ عشقِ بلالی ؔ میں یہ دستور بھی ہے
(محمد بلال خان)
افف اللہ 💔
ReplyDeleteShaid zindge mn hm kbhi the es anmol skhs ko bhool nahe pain gy
Allah pak jannat mn Ala mqam at a frmay