ب ۔ کی کہاوتیں
(۵۶) بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر گرتا
ہے :
یہاں
کچھ سے مراد زمین پر پڑا ہوا روپیہ ہے۔ بنئے کا ہوشیار بیٹا سڑک پر یونہی
نہیں گرتا بلکہ اس بہانے زمین پر پڑا ہوا روپیہ اٹھا لیتا ہے۔ کہاوت کا مطلب
یہ ہے کہ چالاک اور عیار آدمی کا کوئی کام اپنے فائدے سے خالی نہیں ہوتا ہے۔
(۵۷) بندر بانٹ کرنا :
یعنی دو
اشخاص کے درمیان کسی شے کی ایسی تقسیم کرنا جس سے فریقین کو تو کچھ نہ ملے لیکن
تقسیم کرنے والا سارا مال ہڑپ لے۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ ایک بار دو
کووّں کو ایک روٹی مل گئیا ور اس کی تقسیم میں ان میں جھگڑا
ہونے لگا۔ وہ دونوں ایک بندر کے پاس روٹی کی تقسیم کے لئے گئے۔ بندر
نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے لیکن ایک کوّے نے کہا کہ اُس کا ٹکڑا دوسرے کے ٹکڑے سے
چھوٹا تھا۔ اس پر بندر نے دوسرے ٹکڑے سے ایک نوالہ کاٹ کر کھا لیا۔ لیکن ایسا کرنے
سے اب وہ ٹکڑا پہلے ٹکڑے سے چھوٹا ہو گیا۔ کوّوں نے پھر شکایت کی تو بندر نے
پھر بڑے ٹکڑ ے میں سے ایک نوالہ کتر کر کھا لیا جس سے پہلا ٹکڑا چھوٹا ہو
گیا۔ کوّے شکایت کرتے رہے اور بندر روٹی کھاتا رہا یہاں تک کہ آخر میں
بندر کے پاس روٹی کا نہایت چھوٹا سا ٹکڑا رہ گیا۔ اس نے کہا کہ ’’اب یہ تو
اتنا چھوٹا ہو گیا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘ یہ
کہہ کر اُس نے وہ آخری ٹکڑا بھی منھ میں رکھ لیا اور کوّے ایک دوسرے کا منھ
دیکھتے رہ گئے۔ اسی کو’’ بندر بانٹ‘‘ کہتے ہیں ۔
(۵۸) بندر کو ہلدی کی گرہ مل گئی تو پنساری
بن بیٹھا :
کسی نا
اہل آدمی کو ذرا سی کوئی چیز مل جائے تو وہ اس چیز کا ماہر نہیں بن جاتا ہے۔
کہاوت میں کم ظرفوں کی جانب اشارہ ہے کہ اِن کی ذرا سی داد یا تعریف
ہو جائے تو خود کو سب سے اچھا اور برتر سمجھنے لگتے ہیں۔
(۵۹) بن مانگیں موتی ملیں اور
مانگے ملے نہ بھیک :
ایسی صورتِ حال جب بغیر مانگے تو دولت اور شہرت
حاصل ہو جائے لیکن اگر مانگا جائے تو خیرات بھی نہ ملے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر
ہے۔
( ۶۰ ) بندھی مٹھی لاکھ برابر:
جب تک مٹھی بند رہے آدمی کا بھرم قائم
رہتا ہے جیسے لاکھ روپے اس کے ہاتھ میں ہوں۔ مٹھی کے کھلتے ہی بھرم ٹوٹ سکتا
ہے۔اسی طرح خاموشی کے ٹوٹتے ہی انسان کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment