(۵۱ ) بلّی کے گلے میں گھنٹی کون
باندھے گا :
کہاوت کے ساتھ ایک فرضی قصہ منسوب ہے۔ ایک بلی مستقل چوہوں کا شکار
کئے جا رہی تھی۔ چوہوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس مصیبت سے
کس طرح نجات حاصل کی جائے۔ آخر سب سر جوڑ کر بیٹھے۔ ایک چوہے نے تجویز پیش کی کہ
بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے تو اس کے آنے کی ٹَن ٹَن سُن کر چوہے
بھاگ کر اپنی جان بچا سکیں گے۔ تجویز کو سب نے بہت پسند کیا۔ اتنے میں
ایک چوہے نے پوچھا کہ’’ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا
کون؟‘‘ یہ سن کر چاروں جانب سناٹا چھا گیا۔ گویا کسی مشکل کا حل تجویز کرنا
جس قدر آسان ہوتا ہے اسی قدر اس پر عمل در آمد دشوار بلکہ نا ممکن ہو سکتا ہے۔
دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ تجویز کے ہر پہلو پر غور کر لیا جائے اور پھر اس کو
پیش کیا جائے۔
( ۵۲) بندر کے ہاتھ ناریل تھما دیا :
بندر کے ہاتھ میں ناریل دے دیا جائے تو وہ اُسے بے مصرف گھما پھرا کر دیکھے
گا لیکن کچھ کر نہ سکے گا۔ اسی طرح وہ آدمی جو کسی کام کا شعور نہیں رکھتا
ہو اس کو انجام نہیں دے سکتا ہے۔اگر ایسے آدمی کو کوئی مشکل کام دے دیا جائے
تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۵۳)
بندر سے کیا آشنائی :
یعنی کم عقل اور بے مروت کی دوستی کا کیا
بھروسا۔ دوستی معتبر آدمی سے رکھنی چاہئے۔
(۵۴) بندر کیا جانے اَدرک کا سواد :
سواد یعنی مزا۔ ظاہر ہے کہ بندر کو اَدرک
کے مزے کی تمیز نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح نادان اور بے علم آدمی کو عقل کی
باتیں سمجھنے کا شعور نہیں ہوتا چنانچہ اس سے ایسی باتیں کرنا
بے سود ہے۔
( ۵۵)
بندر کے ہاتھ آئینہ دے دیا :
بندر کے ہاتھوں میں
آئینہ آ جائے تو وہ حیرت سے اس میں اپنی صورت دیکھتا ہے۔ چنانچہ کہاوت
کا یہی مطلب ہے کہ بے وقوف اور ناسمجھ سے ایسے کام کی اُمید کی جو وہ جانتا ہی
نہیں ہے۔ استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
HELPED A LOT
ReplyDeleteSentence of bandar kia Janey adrak ka swad
ReplyDelete