اُلجھی تھی عقل و ہوش میں ساغر رہِ حیات
میں لے کے تیرا نام فناہ سے گزر گیا
ساغر صدیقی
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
ساغر صدیقی
چاند کی سمت جو دیکھا ساغر
اپنے ارماں کا سفر یاد آیا
ساغر صدیقی
چاندنی شب کی دھول پی جاؤ
مئے نہیں ہے تو پھول پی جاؤ
گھول کر میکدے کے پانی میں
زندگی کے اصول پی جاؤں
ساغر صدیقی
جسے تہجد مین رب سے مانگا تھا
اسے طاق راتوں میں بھلانے کی دعا کی ہے
قافلے منزل ِ مہتاب کی جانب ہیں رواں
میری راہوں میں تری زُلف کے بل آتے ہیں
ساغر صدیقی
ایک چیز کے دونام ہیں ساغر کے لیے
غیرت قوم و وطن اور ردائے درویش
ساغر صدیقی
امتحان آن پرا ہے تو کوئی بات نہیں
ہم نے سو بار زمانے کے بھرم توڑے ہیں
ساغرصدیقی
کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیاء ہوتا
میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا
ساغر صدیقی
حالات کے دامن میں افلاس تغیر ہے
اِس دور میں انسان کی توقیر گدا گر ہے
ساغر صدیقی
بحر اُمید میں جب کوئی سہارا نہ ملا
میں نے ہر موج کو دیکھا ترے دان کی طرح
ساغر صدیقی
چشم تحقیر سے نہ دیکھ ہمیں
دامنوں کا فروغ ہیں ہم لوگ
ساغر صدیقی
ہر تجربے میں ساغر مَے کا جواز ہے
ہر فلسفے میں زُلف کے گہرائیاں ملیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment