کسی سے بھی ملتی نہیں ہے
یار اپنی بھی کیا طبیعت ہے
عظمت زندگی کی بیچ دیا
ہم نے اپنی خوشی کو بیچ دیا
ساغر صدیقی
صرف دھندلائے ستارون کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
ساغر صدیقی
وہاں اب تک سنا ہے سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزرآئے
ساغر صدیقی
حسن بت ساز کھلونوں کا پرانا عاشق
عشق انجان کھلونوں سے بہل جاتا ہے
ساغر صدیقی
پلا ساقیا کوئی جام غزالی
بھٹکتی بصیرت لہو رو رہی ہے
ساغر صدیقی
دل کی نادانیوں پر غور نہ کر
کھوٹے سکے بھی کام آتے ہیں
ساغر صدیقی
ہائے شہید ناز کی تربت پہ رونقیں
مدہم سی اک شمع دو سوگوار پھول
ساغر صدیقی
چراغ آرزو کو اک سہارا دے ہی جاتی ہے
یہاں ڈھلتے ہوئے سورج کی ہر تنویر ظالم ہے
ساغر صدیقی
کرتے رہے جو چاند ستاروں کی رہبری
کچھ منتظر ہیں ہم بھی انہی رہنماؤں کے
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment