ایسے زخموں کو کیا کرے کوئی
جن کو مر ہم سے آگ لگ جائے
ساغر صدیقی
چاند کی سمت جو دیکھا ساغر
اپنے ارماں کا سفر یاد آیا
ساغر صدیقی
یہ اور بات ہے پھولوں کا ذکر تھا ساغر
کہ اتفاق سے پہنچی ہے بات کانٹوں پر
ساغر صدیقی
کوئی حقیر سی شئی ڈال میرے ساغر میں
کہ زندگی کو برائے عوام کرنا ہے
ساغر صدیقی
حادثے روز ہوتے رہتے ہیں
بھول بھی جاؤ میں شرابی ہوں
ساغر صدیقی
میرے دامن شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آٹے ہین
ساغر صدیقی
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
اس اندھیروں کے عہد میں ساغر
کیا کرے گا کوئی اجالوں کو
ساغر صدیقی
درد اتنا ہے کہ ہے رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مرنے کو جی چاہتا ہے
فیض احمد فیض
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو اُن کا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment