خاک اُڑاتی ہےبتیری گلیوں میں
زندگی کا وقار دیکھا ہے
ساغر صدیقی
اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے.
تشنگی میں آگئی ہونٹوں پہ مے خانے کی بات.
ساغر صدیقی
پھول چاہیے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر
ہم نے آغوش محبت میں سلائے پتھر
ساغر صدیقی
مرے آنسو ہیں کسی شام غریباں کے دئیے
جگمگاتے ہی رہیں گے یہ چراغاں کے دئیے
ساغر صدیقی
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلاسکے
چمن در چمن شراروں کی جُھر مٹ
ساغر صدیقی
آپ اپنا سُراغ ہیں ہم لوگ
ساغر صدیقی
یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
ساغر صدیقی
حادثے کیا کیا تمہاری بے رخی سے ہوگئے
ساری دنیا کے لیے ہم اجنبی سے ہو گئے
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment