یون جھانکو غریب کے دل میں
یہاں حسرتیں بے لباس رہتی ہیں
مدتوں سے ہے سرد مے خانہ
دیر ست مے گُسار جلتے ہیں
ساغر صدیقی
علم کہتا ہے کتابوں کا سمندر یوجا
عقل ناداں کا اشارہ ہے سکندر ہوجا
عقل اور علم کے مٹتے ہوئے دوراہے پر
عشق نے دی ہے سزا مست قلندر ہو جا
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سوجاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
ساغر صدیقی
اُٹھانا خود ہی پڑتا ہے، تھکا ٹوٹا بدن اپنا
کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کندھا نہیں دیتا
اُٹھا کر چوم لی ہیں چند مرجھائی ہوئی کلیاں
نہ تم آئے تو یوں جشن بہاراں کر لیا میں نے
کبھی ساغر اگر میں وجد میں آیا جو لہرا کر
تو اپنے ساتھ دنیا کو بھی رقصآں کر لیا میں نے
ساغر صدیقی
ہر دم دھمال یار ہے سارے وجود میں
تو نے تو انگ انگ کو گنگرو بنا لیا
آنسو بہا بہا کہ بھی ہوتے نہیں ہیں کم
کتنی امیر ہوتی ہیں آنکھیں غریب کی
اشک آںکھوں سے چھلکتے ہی رہے
جب کبھی وہ گُل تر یاد آیا
ساغر صدیقی
یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں عرفانِ بہاران سے
وہ پھولوں کو نئے جذبات کی تعلیم دیتے ہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment