ک ۔ کی
کہاوتیں
( ۷۴) کہیں کھیت کی، سنے کھلیان کی :
یعنی بات کچھ ہو رہی ہے اور مخاطب سمجھ کچھ اور رَہا ہے۔ کھلیان وہ جگہ ہے
جہاں فصل کاٹ کر اکٹھی کی جاتی ہے۔
( ۷۵ ) کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی :
راجہ بھوج سے مراد صاحب حیثیت شخص ہے جب کہ گنگو تیلی کم حیثیت آدمی کا
استعارہ ہے۔ یہ کہاوت تب کہی جاتی ہے جب دو ایسے آدمیوں کا موازنہ کیا
جا رہا ہو جو دولت و حیثیت میں ایک دوسرے کی ضد ہوں۔
( ۷۶) کھوٹا بیٹا،کھوٹا پیسا کام آ ہی جاتا ہے :
اپنی چیز خواہ وہ خراب اور عیب دار ہی کیوں نہ ہو کبھی نہ کبھی کام
دے ہی جاتی ہے۔
( ۷۷) کھیر کھاتے دانت ٹوٹا :
یعنی اتنے نازک مزاج ہیں کہ ذراسی بات کی بھی برداشت
نہیں ہے جیسے کھیر کھاتے میں کسی کا دانت ٹوٹ جائے۔
( ۷۸) کھسیانی بلی کھمبا نوچے :
کسی کی خواہش پوری نہ ہو
تو اس کی الجھن کا اظہار اکثر بے تکی باتوں سے ہوتا ہے۔ یہ وہی صورت ہے کہ
بلی کھسیا کر کھمبا نوچنے لگتی ہے حالانکہ ایسا کرنے سے اس کو کچھ نہیں
ملتا۔
( ۷۹ ) کھلائے کو کوئی نہیں دیکھتا، رُلائے کو دُنیا دیکھتی ہے
:
اگر کوئی شخص غریب پروری کرے تو شاید ہی کوئی اس کی جانب نظر اٹھا کر دیکھے
گا لیکن اگر وہ کسی کو دُکھ پہنچائے تو سب اسے بری نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ
کہاوت بچہ کی پرورش پر بھی صادق آتی ہے کہ بچے کا اچھے سے اچھا کھلائیں
پلائیں تو دنیا بے خبر رہتی ہے لیکن ایک بار وہ کسی بات پر رو دے تو
ساری نگاہیں اس کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔ اسی پر اور صورتیں قیاس کی جا
سکتی ہیں۔
(۸۰) کہیں کی اینٹ، کہیں کاروڑا، بھان متیؔ نے کنبہ
جوڑا :
بے جوڑ اور بے محل باتیں بنا کر خواہ مخواہ اپنی بات
کی تاویل نکالی جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ بھان متی ایک فرضی کردار ہے جو
کہاوت کو پر لطف بنانے کے لئے ایجاد کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment