ک ۔ کی
کہاوتیں
(۸۱)
کہنے سے کمہار کبھی گدھے پر نہیں سوارہوتا :
کمہار اپنا مال عموماً
گدھے پر لاد کر بازار لے جاتا ہے۔واپسی پر اگر اس سے گدھے کی خالی پیٹھ پر
بیٹھنے کو کہا جائے تو وہ آناکانی کرتا ہے۔ البتہ اپنی مرضی سے بیٹھنے میں
اس کو کوئی عذر نہیں ہوتا۔ یہ کہاوت تب کہی جاتی ہے جب کسی سے ایسا
کام کرنے کو کہا جائے جو فی الواقعہ اس کے لئے مخصوص اور آسان ہو لیکن وہ اس سے
انکار کر دے۔
( ۸۲)
کھائے بکری کی طرح، سوکھے لکڑی کی طرح :
بکری ہر وقت کھاتی رہتی ہے۔ کوئی شخص مستقل
کھائے لیکن دُبلا ہی رہے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
( ۸۳)
کھائیے من بھاتا، پہنئے جگ بھاتا :
کوئی جو چاہے کھائے اس
سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن کپڑا اگر دُنیا کی پسند کا پہنے تو
لوگوں کی نظر میں فوراً آ جاتا ہے۔
( ۸۴)
کھچڑی پک رہی ہے :
یعنی
آپس میں چپکے چپکے مشورے ہو رہے ہیں۔چپکے چپکے رائے زنی کو بھی کھچڑی پکانا
کہتے ہیں ۔
( ۸۵ )
کھودا پہاڑ نکلا چوہا :
یعنی شور و شغب تو اتنا تھا لیکن دیکھا تو
معمولی سی بات نکلی، جیسے پہاڑ کسی بڑی اُمید پر کھودا جائے اور اس میں سے
چوہا بر آمد ہو۔ اسی معنی میں یہ شعر بھی استعمال ہوتا ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو
میں دل کا جو چیرا تو اِک
قطرۂ خوں نہ نکلا
(۸۶)
کھچڑی کھاتے پہنچا اُترا :
پُہنچا یعنی کلائی۔ یہ کہاوت انتہائی نازک مزاجی کا مذاق اُڑا رہی ہے کہ نزاکت تو
دیکھئے کہ کھچڑی کھاتے میں نوالہ اٹھایا تو کلائی میں موچ آ گئی۔ محل
استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
No comments:
Post a Comment