س۔ کی
کہاوتیں
( ۶ ) : سارا گھر جل گیا تب چوڑیاں پوچھیں :
ایک حکایت ہے کہ ایک عورت
نے قیمتی اور خوبصورت چوڑیاں خریدیں ۔ اسے شوق ہوا کہ لوگ اس کی چوڑیاں
دیکھیں اور ان کی تعریف کریں۔ چنانچہ وہ بہانے سے لوگوں کے
سامنے جا کر ہاتھ نچا نچا کر باتیں بنانے لگی۔ اتفاق سے کسی نے چوڑیوں
پر غور نہیں کیا۔ کھسیا کر اُس نے اپنے گھر میں آگ لگا لی اور
ہاتھ پھیلا پھیلا کر شور مچانے لگی۔ لوگ آگ بجھانے دوڑ پڑے۔ اس افراتفری میں
بھی کسی نے اس عورت کی چوڑیاں نہیں دیکھیں۔ گھر جل کر خاک ہو
گیا تو ایک شخص کی نگاہ چوڑیوں پر پڑی اور اس نے اُن کی خوبصورتی کی تعریف
کی۔ عورت جھلا کر بولی کہ ’’سارا گھر جل گیا تب چوڑیاں پوچھیں۔‘‘کہانی کی
مناسبت سے کوئی شخص اپنی بے جا تعریف کرانے کی خاطر اپنا ہی نقصان کر نے سے بھی
باز نہ آئے تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
( ۷) ساجھے کی ہنڈیا چوراہے
پر پھوٹتی ہے :
ساجھا یعنی شراکت۔ چوراہے پر پھوٹنا یعنی راز کی تمام باتوں کا ہر کس
و ناکس کو معلوم ہو جانا۔ ساجھے کے کام میں عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ
فریقین لڑتے ہیں اور لوگ تماشہ دیکھتے ہیں۔محل استعمال ظاہر ہے۔
(۸) سانس ہے تو آس ہے
:
جب تک انسان زندہ رہتا ہے اس کی اُمیدیں بھی قائم رہتی ہیں۔ محل
استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۹ ) ساس بہو کی ہوئی لڑائی،
کرے پڑوسن ہا تھا پائی :
دوسرے کے معاملات میں خواہ مخواہ پیر اَڑانا دانشمندی
نہیں ہے بلکہ اس سے مزید مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ
جھگڑا تو ساس بہو میں ہو رہا ہو اور پڑوسن دخل دے رہی ہو۔کوئی کسی کے معاملہ
میں غیر ضروری دخل اندازی کرے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۱۰) سانپ بھی مر جائے اور
لاٹھی بھی نہ ٹوٹے :
یعنی ایسی دانشمندی سے کام لینا کہ گوہر مقصود بھی حاصل ہو جائے اور
کوئی نقصان بھی نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment