کیا فرماتے ہیں
مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں
نے کسی معاملہ پر طلاق کی قسم اٹھائی تھی کہ اگر اُس گھر میں جاؤں تو میری
بیوی تین شرط طلاق، میری نیت یہ
تھی کہ پھوپھی کے گھر نہیں جاؤں گا ،اور وہ اس گھر میں وہ کرایہ پر رہتے تھے ۔ اب انہوں نے مکان تبدیل کر لیا ہے ، کیا میں
اب جس گھر
میں وہ رہ رہے ہیں اپنی پھوپھی کے پاس جا سکتا ہوں ؟ اگر
جاسکتا ہوں تو اس کا طریقہ کیا ہوگا ۔
المستفتی: عبد
الغفار کوہستان
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب
حامدا و مصلیا
طلاق
معلق کی صورت میں شرط کی موجودگی
میں طلاق کا واقع ہونا ایک ضروری امر ہے ۔
تاہم اس سے بچنے کے
لئےیہ تدبیر اختیار کی جاسکتی ہےکہ آپ
اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن
دیں ،عدت گزر جانے کے بعد آپ کی بیوی
بائنہ ہوکر آپ کے نکاح سے نکل جائے
گی ۔اور آزادی کی حالت میں آپ اپنےپھوپھی کے گھر چلے جائیں ،چونکہ
عورت اس وقت آپ کے ملک ِ نکاح میں
نہ ہونے کی وجہ سے طلاق پر کوئی اثر نہیں پڑےگا ۔اور ایک دفعہ حانث ہونے سے
یمین پورا ہوجاتا ہے ۔دوبارہ
وہ کام کرنے سے حنث لازم نہیں آتا
۔ ( یعنی اس حیلہ کو اختیار کرنے کے بعد دوبارہ اپ کا اپنے پھوپھی کے گھر
جانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی) ۔ البتہ
:اس تدبیر کو اختیار کرنے کے بعد آپ کو آئیندہ دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا ۔
وفی الدر
المختار مع حاشية ابن عابدين (رد المحتار)(3/354)
لو حلف لا تخرج امرأته إلا بإذنه فخرجت بعد الطلاق وانقضاء العدة لم يحنث وبطلت اليمين
بالبينونة، حتى لو تزوجها ثانيا ثم خرجت بلا إذن لم يحنث.
و فی
البحر الرائق : (4/23)
لو حلف لا
تخرج امرأته إلا بإذنه فخرجت بعد الطلاق وانقضاء
العدة لم يحنث، وبطلت اليمين بالبينونة حتى لو تزوجها ثانيا ثم خرجت بلا إذن لم
يحنث۔
وفی الدر
المختار مع حاشية ابن عابدين (رد المحتار)(3/355)
فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة
تدخلها فتنحل اليمين فينكحها۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط
واللہ
سبحانہ وتعالیٰ أعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment