آگ
میں پھول
میں تو شعلوں کا پُجاری ہوں مرے
پاس نہ آ
اپنے دامن میں محبت کے حسیں پھول
لیے
ان دلآویز بہاروں سے مجھے ربط
نہیں
جب کوئی تازہ کلی نکہت و رنگت کی
پلی
شبنمی حسن کے سیمین لبادے اوڑھے
مست پلکوں پہ لیے صبحِ جوانی کی
پھوار
میرے تپتے ہوئے ماحول میں در آتی
ہے
تو مرے سرد ارادوں سے دھواں
اٹھتا ہے
میری آنکھوں میں الاؤ سے دہک
جاتے ہیں
اور اس آتش و ظلمت کے گھنے لاوے
میں
مسکراتی ہوئی شاداب کلی کی
سانسیں
چند ہی لمحوں میں رک جاتی ہیں
پھک جاتی ہیں
تو کہ تو بھی ہے کسی ذوقِ نمو سے
سرشار
مست پلکوں پہ لیے صبحِ جوانی کی
پھوار
ایک انجان سی منزل کو بڑھے آتی
ہے
دیکھ اس شعلوں کی بستی کو ذرا
غور سے دیکھ
ہر قدم پر جہاں انگارے ہی انگارے
ہیں
تو یہاں رہ کے کبھی پھول نہیں بن
سکتی
لوٹ جا پیشتر اس کے کہ ترے
ہونٹوں میں
احمریں رس کی جگہ تند شرر گھل
جائیں
ان مہکتے ہوئے رخساروں کے زرخیز
کنول
آگ کے حلقۂ بے باک میں جھلسے
جائیں
میں تو شعلوں کا پجاری ہوں۔۔۔
No comments:
Post a Comment