واہمہ
تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے
اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں
یہ تری سادہ و معصوم ہنسی
آنکھ کی بھول سماعت کا فسوں
تیری عادت ترا انداز نہ ہو
بے تکلّف ترے ہونٹوں کی چٹک
میری خوش فہمی کا اعجاز نہ ہو
میں سرابوں کو بھی دریا سمجھوں
تو فقط شوق کی پرواز نہ ہو
تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے
اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں
یہ تری سادہ و بیباک ہنسی
میں جسے خواب سے تعبیر کروں
وہ حقیقت میں کوئی راز نہ ہو
تیرے بے ساختہ ہنسنے کی ادا
تیری تنہائی کی آواز نہ ہو
میں جسے حسنِ طبیعت جانوں
تیرے جذبات کی غماز نہ ہو
تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے
اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں
یہ تری سادہ و پرکار ہنسی
میری دنیا مری ہستی کا سکوں
کسی طوفان کا آغاز نہ ہو
میں محبت کی طلب کا مارا
تو فقط حسنِ نظر باز نہ ہو
یہ نہ ہو میں تو سوئمبر جیتوں
اور ترے قصر کا در باز نہ ہو
No comments:
Post a Comment