مشورہ
زیست کی تلخیوں سے گھبرا کر
اپنا دامانِ عجز پھیلا کر
آسماں کی طرف نگاہ کیے
اپنے ربِّ کریم کے در سے
موت کی بھیک مانگنے والے!
دیکھ اس زرنگار مسجد کو
آبِ زرّیں کی جھلملاہٹ سے
جس کے مینار جگمگاتے ہیں
تیرے ربِّ کریم کا گھر ہے
اور اس خانۂ مقدّس میں
مئے کوثر کے خم لنڈھائے ہوئے
شوخ غلماں لگائے سینے سے
ملک الموت نیم خوابیدہ
یادِ ربِّ کریم میں گم ہیں
چھوڑ انداز یہ دعاؤں کا
تابہ کے آسرا خداؤں کا
ہاں فقط ایک نعرۂ وحشت
بڑھ فقط اک قدم بغاوت کا
یا تو یہ خیر و شر کے رکھوالے
موت کی بھیک تجھ کو دے دیں گے
یا پھر ان کے مہیب پنجوں سے
چھین کر اپنی زندگی پا لے
موت کی بھیک مانگنے والے
No comments:
Post a Comment