جانشیں
علم و دانش کے سوداگروں نے کہا
جاہلو
تم اندھیروں کی دُنیا کے باسی
جہالت کے تاریک غاروں کے مُردے
کہاں جا رہے ہو، کہاں؟
تم تہی دست ہو
تم تہی جیب ہو
تم تہی دامنوں سے ہمیں کوئی لالچ نہیں
تم نہیں جانتے
تم نہیں مانتے
ہم تمہارے لئے
کب سے تہذیب و حکمت کی نایاب اجناس کو
منڈیوں میں سجائے ہوئے ہیں
تم نہیں دیکھتے
تم کہ شب کو رہو
ہم نے دن کے اُجالے میں بھی بس تمہارے لیے
اِس تمدّن کے فانوس روشن کیے
جن کی شفّاف کِرنوں سے سارا جہاں بقعۂ نُور ہے
عالمِ طُور ہے
پاگلو
تم نہیں جانتے
تم نہیں مانتے
ہم ارسطو ہیں شاہوں کے اُستاد ہیں
ہم فلاطوں ہیں ہم کو ہر اک علم و حکمت کے گُر یاد ہیں
ہم ہی سقراط ہیں
ہم ہی بقراط ہیں
ہم ہی بے مثل شخصیتوں کے خردمند فرزند ہیں
ہم ہی کون و مکاں کے خداوند ہیں
سرپھرو
تم کو ہم سے گلہ ہے کہ ہم نے تمہیں
خاک و خوں کے سمندر میں نہلا دیا
صرف اپنے تسلّط کی خاطر
ہم نے اپنوں کے ہاتھوں سے کٹوا دیا
چاند سورج تو اپنے لیے رکھ لیے
اور تم کو کھلونوں سے بہلا دیا
تم کو اس کی مگر کچھ خبر ہی نہیں
یہ تسلّط یہ جا ہ و حشم یہ زمیں
بس تمہارے لیے ہے تمہارے لیے
دَورِ فردا کے فرمانروا ہو تمہیں
تم کو ہونا ہے اجداد کا جانشیں
پاگلو!۔۔۔ہم سے عالی نظر دیدہ ور
تم سے جو بھی کہیں مان لو
اپنے اپنے مراتب کو پہچان لو
تم نہیں جانتے تم کہ مردہ رہے سالہا سال سے
بھیڑیوں اور درندوں کی ارواحِ بد تم میں در آئی ہیں
اور جہل و جنوں کی نجس مشعلیں دے کے تم کو
بغاوت پہ اُکساتی ہیں
اپنے اجداد سے، اپنے فرمانرواؤں سے، آقاؤں سے
جاہلو
پاگلو
No comments:
Post a Comment