فائدہ مصر میں یوسفؑ رہے زندان کے بیچ
بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعان کے بیچ
تو نہ تھا مردن دشوار میں عاشق کے آہ
حسرتیں کتنی گرہ تھیں رمق اک جان کے بیچ
چشم بد دور کہ کچھ رنگ ہے اب گریہ پر
خون جھمکے ہے پڑا دیدۂ گریان کے بیچ
حال گلزار زمانہ کا ہے جیسے کہ شفق
رنگ کچھ اور ہی ہو جائے ہے اک آن کے بیچ
تاک کی چھاؤں میں جوں مست پڑے سوتے ہوں
اینڈتی ہیں نگہیں سایۂ مژگان کے بیچ
جی لیا بوسۂ رخسار مخطط دے کر
عاقبت ان نے ہمیں زہر دیا پان کے بیچ
دعوی خوش دہنی اس سے اسی منھ پر گل
سر تو ٹک ڈال کے دیکھ اپنے گریبان کے بیچ
کرتے ململ کے پہن آتے تو ہو رندوں میں
شیخ صاحب نہ کہیں جفتے پڑیں شان کے بیچ
کان رکھ رکھ کے بہت درد دل میرؔ کو تم
سنتے تو ہو پہ کہیں درد نہ ہو کان کے بیچ
No comments:
Post a Comment