کر نہ تاخیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ
دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ
حرف زن مت ہو کسی سے تو کہ اے آفت شہر
جاتے رہتے ہیں ہزاروں کے سر اک بات کے بیچ
میری طاعت کو قبول آہ کہاں تک ہو گا
سبحہ اک ہاتھ میں ہے جام ہے اک ہات کے بیچ
سرمگیں چشم پہ اس شوخ کی زنہار نہ جا
ہے سیاہی مژہ میں وہ نگہ گھات کے بیچ
بیٹھیں ہم اس کے سگ کو کے برابر کیوں کر
کرتے ہیں ایسی معیشت تو مساوات کے بیچ
تاب و طاقت کو تو رخصت ہوئے مدت گذری
پند گو یوں ہی نہ کر اب خلل اوقات کے بیچ
زندگی کس کے بھروسے پہ محبت میں کروں
ایک دل غم زدہ ہے سو بھی ہے آفات کے بیچ
بے مے و مغبچہ اک دم نہ رہا تھا کہ رہا
اب تلک میرؔ کا تکیہ ہے خرابات کے بیچ
No comments:
Post a Comment