فضا نورد بادل
میں سایۂ نخل میں کھڑا تھا
جب ایک فضا نورد بادل
لہراتا ہُوا نظر پڑا تھا
یوں قلب و جگر سے آگ اُٹھی
برسوں کی طویل تشنہ کامی
یکلخت ہی جیسے جاگ اُٹھی
پل بھر میں بدن دہک رہا تھا
میں سایۂ نخل سے نکل کر
بادل کی طرف لپک رہا تھا
بادل تھا سمندروں کا پیاسا
یہ اس کا کرم کے چند لمحے
وہ مجھ کو بھی دے گیا دلاسا
دل پر لئے داغِ نا مرادی
چاہا کہ پلٹ چلوں ادھر ہی
جس سمت سے درد نے صدا دی
دیکھا تو رُت بھی جا چکی تھی
مایوس کن انتظار کی دھوپ
اس نخلِ وفا کو کھا چکی تھی
No comments:
Post a Comment