Tuesday, 16 May 2017

AAG '' A Famous Urdu Short Story By Rajinder Singh Bedi,





















آگ
آسنسول ابھی بہت دور تھا۔ یہی کوئی سات ایک میل کے قریب۔
سات میل کا فاصلہ کوئی بڑا فاصلہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس دھان پاتی کے لیے،جو پہلے ہی ٹوٹ چکا ہو، یہ فاصلہ ایک خاصی منزل کے برابر ہے۔ اپنے من من کے پانو سمیٹ کر اوتن اونٹ کے کجاوے کی طرح تاڑ کے نیچے بیٹھ گیا۔ تاڑ اُس علاقے میں بیشمار تھے۔ جدھر دیکھو تاڑ ہی کے درخت نظر آتے تھے اور ان کے مہاسوں سے اپنے آپ جھاگ پھوٹ رہی تھی۔
کچھ دور سڑک کے پاس خاکستری زمین پر کوئلوں کے دھبّے نظر آتے تھے۔ یہ کوئلوں کے گڑھے تھے جو اب بیکار ہو گئے تھے۔ ان گڑھوں کو ملاتی ہوئی سڑک آسن سول کی طرف جا رہی تھی۔ ہر آدھ پون گھنٹے کے بعد اس سڑک پر کوئی گاڑی آ کر رکتی اور پھر اُس پاس کے بھوکوں سے بے خبر چل دیتی۔ ’’ٹھہرو دادا، رک جاؤ دادا … اوتن پورے زور سے چلاّتا اور پھر عاجز آ کر کجاوے پالان کی طرح دُہرا تہرا ہو کر تاڑ کے نیچے جا پڑتا اور زبان کی نوک سے پسینہ چاٹنے لگتا … دُور… دُور … جہاں زمین آسمان سے کٹتی نظر آتی تھی، وہ ایک باڑ یاں دکھائی دے رہی تھیں جن کے ساتھ اُوس کی فصل چھدری چھدری، بوڑھے کے دانتوں کی طرح میلی میلی اُگ رہی تھی۔ فاقوں کے مارے لوگوں نے اُوس کی پیلی پیلی کمزور بالیاں نوچ لی تھیں۔ اب ان میں کچھ بھی نہ تھا،بلکہ اس مہا ماری سے بہت پہلے، ہمالیہ پھاند کر تینگری نور سے آنے والے جانوروں نے کھپریلوں تک سے دھان ڈھونگ لیا تھا۔
اب دھان پاتی مرے ہوئے جانوروں کی ہڈیاں اُبال رہے تھے۔ وہ اور کیا کرتے؟
تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک بھنبھناہٹ سی سنائی دی اور ایک لاری آ کر رُکی۔
’’رُک جاؤ …… رُک جاؤ …… ٹھہرو ……‘‘ اوتن چلاّیا ……’’ ٹھہرو!‘‘
پھر اوتن نے کالی کا واسطہ دیکر گاڑی کو روکنا چاہا، لیکن ایک دم اس کے دماغ نے فیصلہ کر لیا کہ اب کالی کا واسطہ بیکار ہے، اس مہاماری کے سامنے، کالی اور بھگوان دونوں بے بس ہیں، کالی اور بھگوان ظالم اور مظلوم،دونوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اوتن نے اپنا واسطہ دینا چاہا۔ لیکن اسے کیا غرض تھی …… وہ چپ رہا۔
ڈرائیور نے فریاد سن لی۔ اس نے کھڑکی میں سے سر نکال کر پوچھا… ’’کہاں جاؤ گے؟‘‘ … آسن سول؟ کیا دو گے آسن سول کا؟‘‘
اوتن نے ایک ہی سانس میں کہا۔ ’’جو کچھ میرے پاس ہے، دے دوں گا۔ تمھارا غلام  رہوں گا ساری عمر۔ ساری عمر تمھارا غلام رہوں گا ساری عمر …‘‘ اور پھر وہ ہانپنے لگا۔
ڈرائیور تھوڑی دیر کے لیے رکا ۔ موبل آئیل گاڑی سے نیچے ٹپک رہا تھا۔ نیچے اُتر کر اُس نے انجن کا ڈھکنا اُٹھایا۔ موبل آئیل گیج کو ٹینک میں داخل کیا اور بولا: — ’’کافی ہے، کافی …‘‘ پیچھے سے اس کے ساتھی نے آواز دی … ’’نصیبوں کی جان کو رو رہے ہو دادا؟‘‘ ڈرائیور نے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا ’’ہاں‘‘ اور پھر اوتن کی طرف مُڑتے ہوئے کہا … ’’ساری جندگی کی مصیبت کون مول لے ‘‘، ’’نگد‘‘ کیا دو گے؟ بولو دس روپئے دو گے؟‘‘
اوتن نے جلدی سے ہاتھ جیب کے اندر ڈالا اور جیب سمیت نقدی کو باہر لے آیا۔ ایک روپئے کا بوسیدہ سا نوٹ تھا اور کچھ سکّے۔ ڈرائیور بات کیے بغیر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اوتن اپنی جگہ کھڑا کھڑا جھپٹا۔ پھر جیسے اسے ہاتھی پانو کی بیماری ہو،پانو زمین پر گڑے کے گڑے رہ گئے اور ہاتھ آگے بڑھ گئے۔ وہیں کھڑے کھڑے اوتن گر پڑا اور اس کے منھ سے جھاگ پھوٹنے لگی۔
لیکن اوتن اکیلا نہ تھا۔ اس کے پاس ایک اور آدمی بھی کھڑا تھا۔
یہ سب کچھ اس خواب کی مانند تھا، جس میں ایک آدمی دہشت کے مارے بھاگنا چاہتا ہو، لیکن پانو زمین میں گڑ جاتے ہوں، اور بھاگ نکلنے کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہوں۔ البتہ ایسی تفصیلات نظر آ جاتی ہوں، جیسے تاڑ کے پتّے جھوم رہے ہیں اور کوئی آدمی پاس کھڑا … لیکن وہ آدمی بولنے لگا، اصل انداز میں،جیسے اصل اور نقل، خواب اور بیداری ایک دوسرے میں گھل مل رہے ہوں۔ یہ خواب نہ تھا۔ کوئلے کے گڑھے پر بیکار چرخی جھکڑے ساتھ برابر چل رہی تھی … صاف چکر لگاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ وہ آدمی جو اس بیداری اور خواب کی حدوں کو ملاتا ہوا آ رہا تھا، گنگنا رہا تھا … من پگلو ہو گیورے، تمرو گورنگ روپ دیکھے……
اس آخری کشمکش کے بعد اوتن بلبلانے لگا۔ میں مر جاؤں گا دادا۔ گویا زندگی میں اُسے پہلی بار گیان ہوا کہ وہ مر بھی سکتا ہے۔ مشکل سے مشکل گھڑیوں میں بھی اسے امید رہی کہ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ وہ نہیں مرسکتا۔ آخر اس نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ۔ اب دہشت سے اس کی آنکھیں پھیل رہی تھیں اور اسے یقین ہونے لگا کہ مرنے کے لیے ضروری نہیں کہ کسی کا کچھ بگاڑا جائے… وہ آدمی کھڑا اوتن کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ اگرچہ اس کا من گورنگ روپ دیکھے پگلا ہو رہا تھا، تاہم وہ اپنے گرد و پیش سے بے خبر نہیں تھا، وہ آدمی تھا، پتھر تھوڑے تھا۔ یہ بول تو یوں ہی زبان پر چلے آئے تھے، جیسے صبح اُٹھتے ہی کوئی بول بے ساختہ زبان پر آ جائے۔ اچھا یا بُرا۔ آدمی دن بھر کاروبار کرتا ہے اور بنا جانے بوجھے اس بول کو گنگناتا ہے… مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر بھی گاتا ہے… ایک مرگ ناگہانی اور ہے! …
’’تمی کتوباڑی چھے‘‘؟ اس نے پوچھا۔
اوتن نے پاگل ہوتے ہوئے جواب دیا۔’’میں مر جاؤں گا، دادا!۔‘‘ اور وہ اور بھی متوحش نظر آنے لگا۔ متر مہاشے نے یہ سوال بھی اسی انداز میں کیا تھا جس میں گورنگ روپ، گنگنایا تھا۔ اب اس نے ایک دم دلاسا دیتے ہوئے کہا … ارے تم مرجاؤ گے تو کیا بگڑ جائے گا … بتاؤ؟
’’کیا دنیا کا کار بیوبار بند ہو جائے گا؟‘‘
’’تمھارے مرجانے سے لوگ بھی مرجائیں گے؟‘‘
’’اس مہاماڑی میں بتیس لاکھ مرگئے۔‘‘
’’تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو……؟‘‘
اوتن کے ہونٹوں پر جانے مہر لگ گئی۔ کل اس کے سامنے پونم مرا تھا۔ لیکن اس گھڑے پر بیکار چرخی جھکڑ میں ویسے ہی گھومتی رہی۔ گویا اسے بھی رک جانا چاہیے تھا۔ تاڑ ہوا میں اسی طرح جھومتے رہے تھے، اور اپنے مہاسوں سے نشیلی تاڑی کی جھاگ بدستور اگلتے رہے تھے اور پیٹ بھرے آدمیوں کو متوالا کرتے رہے تھے۔ مکھیا ویسے ہی حواصلوں کی طرح نوالے نگلتا رہا تھا … بچوں کو تکلیف ہوئی۔ اوتن نے سوچا ۔ لیکن اس کے مر جانے سے وہ تھوڑے ہی مر جائیں گے۔ زندگی کے ساتھ ٹکر لیں گے تو وہ اور بھی اچھے آدمی بن جائیں گے۔ پدما ان بچوں کے آسرے پر جیتی رہے گی۔ ہو سکتا ہے وہ دوسری شادی کر لے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اسی منھ سے دوسرے آدمی کے سامنے انہی الفاظ میں محبت کا اقرار کرے، جن الفاظ میں اس نے اوتن کے سامنے کیا تھا؟… لیکن اگر ایسا ہو جائے تو آخر کیا ہو جائے گا؟
تھوڑی دیر کے بعد اوتن کو پتہ چلا، اس کا ساتھی سرکاری آدمی ہے۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ امید اور خوف کے ساتھ۔ اس آخری زور کو خرچ کر دینے پر اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ گھٹنے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے، جیسے ذبح ہونے سے پہلے مرغ کی چونچ کھل جاتی ہے، اور تنفس کی تیزی کی وجہ سے اس کی زبان، اس کا گلا، اس کی اوجھڑی تک پھڑپھڑانے لگتی ہے۔ ایسے ہی اوتن کا منھ کھل گیا تھا اور زبان تالو سے نرخرے تک کانپ رہی تھی۔ آخر وہ سیدھا بیٹھ گیا اور اپنی آنکھوں پر زور ڈالتے ہوئے متر مہاسے کی طرف دیکھنے لگا۔ اچانک اُسے کچھ یاد آیا۔ اور بولا۔
’’امی براہمن باڑیا آچھے۔‘‘
’’اوہ، براہمن باڑیا آچھے‘‘سترمہاشے نے کہا۔
کچھ دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے تھے۔ اس اثنا میں ایک اور گاڑی آئی اور بھنبھناتی ہوئی گزر گئی۔ اس دفعہ نقاہت کے باعث اوتن نے اسے کھڑا ہونے کی کوشش نہ کی۔ شاید دوسرے آدمی کو پاس کھڑے دیکھ کر اُسے حوصلہ ہو گیا تھا۔ پھر اسی مبہم سے احساس نے اس کا احاطہ کر لیا تھا کہ وہ مر نہیں سکتا۔ آخر اس نے کون سا قصور کیا ہے؟
جھکڑ کے ساتھ ایک دھول سی چھا گئی۔ تینگری نور سے آئے ہوئے پرندے بڑے بڑے پہاڑی کوّے ہوا کی اوپر کی سطح پر پَر تولنے لگے۔ وہ جس مقام پر اُترنا چاہتے تھے، اس سے گزوں دور جا پڑتے۔ لیکن وہ اپنے حساب سے منزل سے بہت ورے اُترنے کی کوشش کرتے اور ہوا انھیں ڈھکیل کر عین مطلوبہ جگہ پر بٹھا دیتی۔ اوتن اور مترمہاشے میں کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں ۔ اوتن کی جان میں جان سی آ گئی تھی۔ اس نے اپنی بڑھی ہوئی داڑھی سے دھول جھاڑتے ہوئے کہا۔ ’’اب ہمارے پاس کچھ نہیں رہا، دادا۔ امّن کی فصل لینے کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ بیچ دیا۔ لیکن وہ فصل بھی کنگلوں نے لوٹ لی۔ اوس بونے کی ہمت کس میں تھی۔‘‘
متر مہاشے نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ تعجب ہے، آسن سول کے لوگ بھی بھوکوں مریں۔‘‘
’’کیوں‘‘ آسن سول میں کیا ہے؟‘‘
’’آسن سول میں کیا ہے ؟— سارا بنگال بھوکوں مر گیا، لیکن سرکار کو جنگ کے لیے یہاں سے کوئلہ لینا تھا۔ وہ آس سول کے مزدوروں کو کیسے مارسکتی تھی؟‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘ اوتن نے کہا ’’لیکن اس علاقے میں جو سفید پوش لوگوں کا حال ہوا وہ تم نہیں جانتے۔ مانگنا وہ عار سمجھتے تھے اور دینا ان کے بس میں نہیں تھا۔ کان کے مالکوں تک کو کچھ نہ ملتا تھا۔ وہ مزدوروں سے چھین جھپٹ کر کھاتے تھے …‘‘ یہاں اوتن سانس لینے کی غرض سے رکا۔
’’یہ چھینا جھپٹی وہ ہمیشہ کرسکتے تھے ‘‘ مترمہاشے نے اوتن کو کم بات کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں متر مہاشے …‘‘ اوتن نے رُکتے ہوئے کہا ’’انھیں اتنا کم ملنے لگا کہ مشکل سے ان کا پیٹ بھرتا تھا۔ ہم سب کچھ چور بازار سے پیسے کے زور خریدتے، لیکن اب اس ایماندار سرکار نے نیچے سے چور بازار بھی ختم کر دیا… چور بازاری بری چیز ہے نا!‘‘
اور پھر جانے اوتن کو شک سا گزرا ۔غصہ بھی نشے سے کم نہیں۔ پھر اوتن میں طاقت عود کر آئی۔
’’تم چور بازار بند کرنے آئے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا ’’تم چوربازار بند کرنے آئے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ۔ یہاں سب لوگ بھوکوں مر جائیں گے… سب … مزدور … مزدور وں کے مالک … سب۔‘‘
میں چور بازار بند کرنے نہیں آیا۔‘‘
’’تو پھر تم چور بازار میں نفع کمانے آئے ہو؟‘‘ اوتن نے اور غصہ ہوتے ہوئے کہا … لیکن اس کے منھ پر کف سی آ گئی۔ اوتن نے مترمہاشے کا چہرہ ٹٹولنے کی غرض سے ہاتھ بڑھایا، لیکن اس کے ہاتھ پانو نے اسے ہلنے نہ دیا ۔ایک پسپائیت اس پر چھا گئی اور اس نے کہا ’’ہماری جان بچانا تمھارا فرض ہے … تم سرکاری آدمی ہو …‘‘
مترمہاشے بتر بتر اوتن کی طرف دیکھتے رہے۔
اوتن بولا۔ ’’تم مجھے آسن سول بھجوا سکتے ہو۔ ضرور بھجوا سکتے ہو … مرنے سے پہلے…‘‘
مترمہاشے نے سوچتے ہوئے کہا ’’میں لوگوں کی جان بچانے نہیں آیا۔‘‘
’’نہیں‘‘؟ اوتن نے پھر گھٹنے سکیڑتے ہوئے کہا ’’تم کیا کرنے آئے ہو؟‘‘
’’مجھے مرنے والوں کی تعداد گننے پر لگایا گیا ہے۔‘‘
اوتن نے اپنی دھندلائی ہوئی آنکھوں میں سے دیکھا۔ متر مہاشے آنکھوں سے نمی پونچھ رہے تھے۔ اس نے دیکھا مترمہاشے کسی اچھے خاندان کے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے خاندان کے آدمی، جسے اس مہاماری میں بھوک کے لیے جدوجہد نہیں کرنا پڑی۔ جس کی بہنوں کو دبے پانو اپنے ہاں کے چور دروازے سے رات کے وقت جانا اور آنا نہیں پڑا۔ وہ رحم دل تھے۔ ان کی آنکھیں نمناک تھیں … لیکن اوتن نے سوچا۔ ان کے رحم دل ہونے کا اسے کیا فائدہ؟ اس قسم کا ترحم بھی عیاشی تھی۔
تاڑ کے اوپر سے بتاشوں کی طرح کے جھاگ کے قطرے گرے— سائیں سائیں کی آواز میں اوتن کی آواز گم ہو گئی،وہ پھر بلبلانا چاہتا تھا، اور مترمہاشے کو کہنا چاہتا تھا … پھر یہاں کیوں کھڑے ہو … جاؤ ۔ اپنے کاغذوں میں ایک اور نام لکھ لو۔ مترمہاشے دیکھنے میں آنسو بہا رہے تھے۔ جیسے کوئی گدھ ہو اور کسی جانور کے مر جانے کا انتظار کر رہا ہو۔ اگر وہ چلے جاتے تو   خانہ پری کے لیے پھر انھیں لوٹنا پڑتا۔
مترمہاشے نے اوتن کے کندھے چھوئے اور کہا۔
’’اوتن دادا … تم لوگ خود کچھ بھی تو نہیں کرتے۔ ہر کوئی اپنی مدد آپ کرے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔
اوتن نے ہلکے سے سر ہلا دیا۔ متر مہاشے بولے
’’اوتن دادا، تم کلکتے کیوں نہیں چلے جاتے… کلکتے۔‘‘
اوتن پر ایک غنودگی سی طاری ہو گئی۔ اس کے اوجھڑی پھڑک پھڑک کر ہار چکی تھی اور اس کا دماغ ایک جالا سا بننے لگا تھا۔ اس کے ذہن کے افق پر ایک دھول سی چھا گئی۔ پھر کچھ ہوش آئی۔ اب کے مترمہاشے خواب کے عالم میں تھے …… اوتن کسی زمانے میں خود مترمہاشے تھا۔
اوتن کے بزرگ براہمن باڑیا کے گانو اوبی میں رہتے تھے۔ اوتن کا باپ ایک معمولی حیثیت سے ریلوے ورکشاپ میں نوکر ہوا تھا۔ وہ صرف بجلی کے پنکھوں پر آرمیچربنا کرتا تھا۔ اس زمانے میں پنکھے صرف رؤسا کے ہاں ہوتے تھے۔ اس لیے ایک پنکھا معمولی سا خراب ہو جانے پر جیتندر ناتھ، اوتن کے باپ کی رسائی گورنر تک ہو جاتی تھی۔
جوتن بابو ورکشاپ سے اکثر تاریں، سوچ، گاڑیوں کا روغن اور ایسی کئی ایک چھوٹی موٹی چیزیں اُڑا لیا کرتے تھے۔ ایندھن کی ان کے ہاں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی تھی، کیونکہ تیل میں بسے ہوئے چیتھڑے، جن سے انجن صاف کیے جاتے تھے، بکثرت مل جاتے تھے۔ بیٹری کے ذریعے ان کے ہاں بتیاں جلتیں۔ اور یہ بات آس پاس کے دس بیس گانووں کے لیے عجوبہ تھی۔ اس کے باوجود اکثر طالب علموں کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ بہرے کی حیثیت سے صاحب کے ہاں نوکر ہو جائیں اور جان بوجھ کر انگریزی کا کوئی لفظ نہ بولیں، اور پھر میم صاحب یا صاحب کو کہیں کہ انھیں انگریزی پڑھا دے۔ پھر ایک دن میں انگریزی کی پرائمر اس حد تک پڑھ جائیں کہ صاحب ان کی ’’خدا داد لیاقت‘‘ کا قائل ہو جائے اور فوراً کہے، تم پلیٹیں دھونا چھوڑ دو … تم ناحق رکابیاں چمکاتے ہو۔ حالاں کہ تم ہندستان کی قسمت چمکا سکتے ہو …… اور پھر صاحب فرلو پر ولایت جائیں تو انھیں بھی ساتھ لے جائیں۔ اور انھیں آکسفورڈ میں داخل کرا دیں … اپنے خرچ پر … صاحب جو ہوئے اور ہر صاحب فراخ دل ہوتا ہے… پھر آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کر کے لوٹیں تو قریب قریب وہی مرتبہ حاصل کر لیں، جو ان کے صاحب کو حاصل تھا۔ وہ لوگوں کو حیران کر دیں اور پھر ان تمام بھائیوں سے بدلہ میں، جن کے ساتھ تین پشت سے مقدمہ چل رہا تھا، یا جنھوں نے نوکری کے سلسلے میں ان سے بات تک کرنا گوارا نہ کیا تھا۔
کرسمس کے دنوں میں اپنے ہاں ڈالی لے جانے اور
May God bless you! May God shower good luck on you and your near and dear ones. may God…..
ایسے الفاظ کہنے والوں کو صاحب لوگوں نے ابھی نفرت کرنا شروع ہی کیا تھا۔ بظاہر خوش ہوتے تھے، لیکن جوں ہی خوشامدی لوگ کوٹھی کے احاطے سے باہر نکلتے، صاحب لوگ، میم لوگ اور باوا لوگ ہنستے اور نفرت سے "Bloody swines these” اس قسم کے خطابات سے ان لوگوں کو یاد کرتے۔ لیکن ایک اور طریقہ بھی تھا، جسے جوتن بابو نے کامیابی کے ساتھ اختیار کیا۔ اس نے گورنر کی بیوی کے ہاں تھیلی دار گھنٹی لگا دی۔ گورنر صاحب بہادر کے سلام بولنے پر ہزایکسیلینسی جاگ بھی پڑتیں اور ان کے اعصاب پر گھنٹی کی کرخت آواز سے کوئی بُرا اثر بھی نہ پڑتا۔ ہزایکسیلینسی نے فوراً کہا ’’مانگ کیا مانگتا ہے۔‘‘ جوتن نے کہا ’’میم صاحب، آپ کا دیا بہت کچھ ہے۔ آپ کے جوتوں کے صدقے سب کچھ حاصل ہے۔ جب میم صاحب نے تیسری مرتبہ کہا تو جوتن بولا ’’یور ایکسیلینسی! میرا عہدہ بڑھا دیا جائے۔‘‘ اسی دن ملٹری سیکرٹری کے نام چٹھی لکھی گئی۔ ملٹری سیکرٹری نے ایجنٹ صاحب کے نام لکھا۔ اور جوتن بابو شدہ شدہ جرنی مین کے عہدہ تک جا پہنچے وہ فورمین بھی ہو سکتے تھے، بشرطیکہ وہ عہدہ انگریز کے لیے وقف نہ ہوتا۔
تو گھر بھر میں اس قدر فراغت تھی۔ اوتن ا بھی اسکول سے نکلے ہی تھے۔ صحت بنانے کا انھیں خوب خیال تھا۔ آخر تمام زندگی یہی صحت خرچ کرنا تھی۔ وہ دن رات ڈنٹر پیلا کرتے، مالش کرتے۔پہلے تو وہ صبح دہی کا بھرا ہوا ایک کٹورہ پی جاتے۔ پھر سورج نکلتے سمے پچاس بادام الائچی کے ساتھ کوٹ کر لڈو سا بنا لیتے اور کھا جاتے۔ پھر میاں شمس الدین کے ہاں کا سا بونٹ پلاؤ اور مرغن چیزیں کھائی جاتیں۔ پھر دودھ پیا جاتا۔ پیٹ پر اتنا بوجھ ہونے سے رات کو اکثر سوپن دوش ہو جاتا۔ اور اس کمزوری کو پورا کرنے کے لیے اگلے روز اور کھایا جاتا
جسم میں قوت وافر تھی۔ جذبات کا خزینہ بھی بہت تھا۔ معمولی سی بات پر آنسو اُمڈ آتے تھے۔ چونکہ طاقت ور آدمی ہر کسی کو معاف کر دیا کرتا ہے، اس لیے اوتن کسی کو کچھ نہ کہتا۔ہر ایک کو معاف کر دیتا اور معاف کر دینے کے بعد وہ سوچتا۔ خدایا میں تیرا کتنا عاجز بندہ ہوں اور پھر آنسو اس کی آنکھوں میں چھلکنے لگتے۔ اسے اکثر خیال آتا، اگر میں چاہتا تو ایک پل میں اس شخص کا کچومر نکال سکتا تھا، لیکن میں نے اسے مارا نہیں …… اس کی بیوی ہے جو ہمیشہ بیمار رہتی ہے اور پھر یہ اناتھ آلیہ کا منتری ہے اور ہر سال اس کے ہاں ایک بچّہ پیدا ہو جاتا ہے … اور پھر آنسو
چنانچہ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ سانیالوں کے مزارع نرپیندر کی بیوی منیکا بیمار پڑی تھی۔ اس کا خاوند، بوڑھے والدین، نصف درجن بچوں اور وقت بے وقت کی نوکری کے درمیان کس قدر پریشان پھرتا تھا۔ اوتن اکثر اس کے ساتھ ہسپتال جایا کرتا تھا۔ اسے تمام مریضوں کی حالت پر رحم آتا … … وہ لوگ چاہتے تو تندرست ہو سکتے تھے۔ وہ ہوا خوری کرتے، پھل کھاتے تو چند دنوں میں راضی ہو جاتے… ایک دن اوتن ایف وارڈ میں، جہاں اسٹیشن ماسٹر گروپ کے لوگ اور ان کے وابستگان بیمار پڑے تھے منیکا کے پاس پہنچا ۔ منیکا کو کثیر الاولادی سے دق ہو چکی تھی۔
’’میں تمھیں علاج بتاؤں دیدی؟ … ‘‘ اوتن نے آناً فاناً سوال کیا۔
’’ہاں اوتن بھیّا — اگر تم مجھے صحت دے سکو تو میں آرام سے بچّے پال سکوں —  مجھے اپنی جان کی پروا نہیں۔‘‘
اس وقت نرپیندر آ گیا ۔وہ دفتر سے چھٹی لے کر آیا تھا۔ چونکہ ہر روز اسے اپنی بیمار بیوی کے لیے ڈبہ پہنچانا پڑتا تھا، اس لیے دفتر سے دیر ہو جایا کرتی تھی، او ر اس کے آفیسر دھمکی دیتے تھے۔ نرپیندر اپنے اسٹیشن کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہاں لگے بندھے آمدنی ہو جاتی تھی۔ ورنہ اتنے بچوں کا پیٹ کہاں سے پل سکتا تھا۔ اس لیے وہ چاہتا، پیسے بھی آتے رہیں اور منیکا بھی بچ جائے۔ البتہ اسے منیکا کی زیادہ پروا تھی اور وہ بچوں کو نہیں چاہتا تھا، جو بن بلائے مہمان کی طرح پیچھا ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ نرپیندر کو سامنے دیکھ کر اوتن جھینپ گیا۔ لیکن اوتن کی نیت صاف تھی۔ اس لیے وہ بہت جلد سنبھل گیا۔ منیکا کے دُبلے پتلے نحیف و زار مالک نے بھی ایک تیکھی نظر سے اوتن کی طرف دیکھا، کیونکہ وہ اس کی غیر حاضری میں بھی ہسپتال پہنچنے لگا تھا۔نرپیندر تن کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی نیت بھی صاف تھی۔
اوتن نے کہا۔’’منیکا میری بہن ہے۔‘‘
منیکا کے خاوند نے کہا۔ ’’وہ میری بیوی ہے اور وہ دق سے مری جا رہی ہے؟‘‘
’’اس کی علاج تو بتانے آیا ہوں دادا… سنو گے؟‘‘
’’کہو کیا دارو بتاتے ہو؟‘‘
’’دیکھو پیٹ بیماری کا مرکز ہے۔ ہر بیماری پیٹ سے پیدا ہوتی ہے۔اگر تمھارا پیٹ صحیح کام کرنے لگے، تو تمھارا دل و دماغ اور اعضائے رئیسہ ٹھیک کام کرنے لگیں گے، پھر تم کبھی بوڑھے نہ ہو گے، کبھی بیمار نہ ہو گے۔ہم نے پیٹ کو مصنوعی قسم کی گرمی سے تباہ اور برباد کر رکھا ہے۔ ہم چائے پیتے ہیں انگریزوں کی نقل میں، لیکن تم نہیں جانتے چائے کتنا نقصان کرتی ہے اور انگریز چائے کے ساتھ کتنا مکھن کھاتے ہیں۔ چائے پیٹ میں انتڑیوں کے اندر ایک چکنی اور غلیظ سی تہ جما دیتی ہے جو کبھی دور نہیں ہوتی۔ سو اگر چائے پینا اتنا ہی ضروری ہے، تو مکھّن کھایا کرو۔
’’تم لوگوں کے پیٹ جلے ہوئے ہیں۔ میں انھیں ہرا کرسکتا ہوں۔ مثلاً اگر تم مٹی کو اپنے پیٹ پر باندھنے لگو، صاف اور شدھ مٹی کو تو مٹی مساموں کے راستے سے تمھارے پیٹ کی تمام غلاظت کو کھینچ لے گی۔ مٹی میں صاف اور شدھ کرنے کی بہت طاقت ہے۔ تم سیمنٹ پر غلاظت پھینکو فوراً بدبو پھیل جائے گی۔ خدا کی زمین کروڑوں انسانوں کی غلاظت سے ہر روز خراب ہوتی ہے، لیکن اس میں سے بدبو نہیں آتی اور پھر مٹی پر کون سے دام لگتے ہیں۔ خدا کی سب بڑی بڑی نعمتیں تمھیں مفت ملتی ہیں۔ لیکن چونکہ انسان دام خرچ کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ اسے یقین ہی نہیں کہ مفت بھی آرام ہو سکتا ہے … ہر روز آسمان پر ستارے نمودار ہوتے ہیں، اور چاند اپنی کرنوں سے ساری دنیا کو منور کرتا ہے۔ کوئی چاہے تو انھیں پہروں دیکھتا رہے … مفت … بالکل مفت … برخلاف اس کے کوئی مصور ان کی نقل اتارے تو اسے ایک نظر دکھانے کے لیے دام وصول کر لیتا ہے… روشنی … پانی … ہوا … قدرت کی سب نعمتیں مفت ملتی ہیں۔ اتنی کثرت سے، اتنی بہتات سے
پھر اوتن نے ہاتھ لگائے بغیر لکڑی کی قمچیوں کی مدد سے پٹ سے ایک پٹ سن کے ایک کپڑے پر مٹی کی تہیں جما کر دیکھیں۔
پٹاں بنا چکنے کے بعد اوتن کہنے لگا ’’تمھیں مٹی اوبی گانو سے نہیں لینا ہو گی۔ مٹی چکنی ہو۔ گنگا کے کنارے کی ہو تو بہتر ہے۔ سب سے اچھی مٹی گنگا کے کنارے ملتی ہے۔ ہمارے گانو کے ارد گرد کی مٹی غلاظت سے پٹی پڑی ہے اور بہت ریت ہونے کے باعث مفید نہیں ہو سکتی۔‘‘
منیکا کے خاوند نے کہا۔ ’’جو گنگا کے کنارے مٹی لینے جائیں تو …‘‘
اوتن نے سنی اَن سنی ایک کرتے ہوئے کہا۔ ’’تو یہیں کسی صاف جگہ سے مٹی لے لی جائے۔‘‘
’’پٹیوں کے بعد دوسرا علاج سنٹر باتھ ہے۔‘‘ اوتن کہا’’ آؤ میں تمھیں سنٹر باتھ کا طریقہ بتاؤں۔ منیکا میری بہن ہے۔ آخر اس میں شرم کی کون سی بات ہے‘‘ ۔ پھر وہ جھجھک کر بولا ’’منیکا کپڑے اُتار کر پانی میں بیٹھ جائے۔ پانی ہمیشہ ٹھنڈا ہو تو اچھا ہے۔ ہمارے میدانوں کے دریا تو یہاں تک پہنچتے پہنچے گرم اور گندے ہو جاتے ہیں…‘‘
’’دیکھو یوں بیٹھ جاؤ … یوں … ہاں! سب جگہ پانی میں ڈوبی رہے۔ پھر بائیں ہاتھ سے دونوں جگہوں کے درمیان پانی لو، ارے اس میں شرم کی کون سی بات ہے۔ یہاں اعصاب کی گانٹھ ہوتی ہے۔ یہاں سے مصنوعی، غیر قدرتی گرمی نکل جانی چاہیے۔ ہم نے ان جگہوں کو غیر قدرتی اور کثرت استعمال سے بیماری کا مسکن بنا دیا ہے … پھر شرم …!‘‘
منیکا نے اپنا منھ شرم سے تکیے میں چھپا لیا۔
اوتن نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’یہ سب جھوٹی شرم ہے دیدی! اور پھر اوتن نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میرا تو ارادہ ہے کہ ایک ایسی بستی بساؤں جس میں سب لوگ ننگے رہیں۔ آج ہم نے خدا کے دیے ہوئے خوبصورت جسم کو طرح طرح کے روگ لگا رکھے ہیں۔ آج کون آدمی ہے اور کون عورت ہے جو کسی کے سامنے ننگی کھڑی ہو سکتی ہے … کون کہہ سکتا ہے کہ جس قسم کا خوبصورت جسم اُسے خدا نے دیا تھا، اُسے اُس نے برقرار رکھا ہے—‘‘
’’بھیّا ! کپڑے پہننے میں مساوات کہاں؟ ننگے پن میں مساوات ہے۔ سب لوگ، بہن بھائیوں کی طرح رہ سکتے ہیں … ہاں … ہاں!‘‘ اور پھر اوتن نے سر جھکا دیا، اور بولا ’’بلکہ یہ کہ نانگوں کی اس بستی میں جب کوئی نیا آدمی آئے تو اس کے اعزاز میں محبت اور اخوت کا ایک گیت گایا جائے تاکہ آنے والے کو پتہ چلے کہ وہ چیرنے پھاڑنے والے جلادوں اور نرسوں کے پاس نہیں جا رہا ہے، بلکہ ایسے لوگوں میں جا رہا ہے جو اسے بہن بھائی سمجھتے ہیں … صرف محبت سے انسان کی بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔‘‘
منیکا کے خاوند نے ایک اور کڑی نگاہ اوتن پر ڈالی۔
محبت اور جوش کے ساتھ اوتن کا گلا بھر آیا۔ ایک مصمم ارادے کے ساتھ اس نے گلا صاف کیا اور بولا ’’ننگا رہنے سے خواہشات کم ہو جاتی ہیں، بلکہ حُکما ء کا خیال ہے کہ عورت اور مرد کی ایک دوسرے کے لیے کشش ہی نہیں رہتی۔ اگر رہے گی تو اتنی، جتنی قدرتی طور پر ہونی چاہیے۔ اس وقت سب کچھ غیر قدرتی ہے، مصنوعی …… ہمارا رہنا سہنا، کھانا پینا، پہننا، بچے ّپیدا کرنا… ہمارے علاج کے سب طریقے مصنوعی اور غیر قدرتی ہیں۔‘‘
پھر اسی طرح اوتن سنٹر باتھ کے متعلق ہدایات دینے لگا۔ ’’کسی قسم کا بیمار میرے پاس آئے، تو وہ چند دنوں میں تندرست ہو جائے گا۔ پیٹ ٹھیک ہو جائے تو پھیپھڑے اپنے آپ درست ہو جائیں گے۔ تم منیکا کو میرے پاس لاؤ۔ سنٹر باتھ میں اپنے ہاتھ سے نہیں دوں گا۔ یہ کام تمھارا ہے۔ تم اس کے خاوند ہو۔ سچ پوچھو تو میں اپنے ہاتھ سے علاج کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا، بشرطیکہ … سب عورتیں میری بہنیں ہیں۔
ہو سکتا ہے میں ہندستان میں ننگے لوگوں کی بستی قائم کروں، تو پہلے پہل مردوں اور عورتوں کو مصلحت کی بنا پر ایک دوسرے سے علاحدہ رکھوں۔ ممکن ہے عورت اور مرد لنگوٹ باندھے رہیں اور پھر ایک سماں آئے کہ وہ کپڑے اُتار کر کھڑے ہو جائیں ۔ ننگے … ایسے ننگے جیسے وہ خدا کے پاس سے آئے تھے۔
اس قسم کی بستی پہاڑ کے دامن میں ہونی چاہیے۔ ایسی جگہ پر جہاں نہ پہاڑ ہو اور نہ بالکل میدان۔ نہ بہت سردی ہو اور نہ بہت گرمی۔ وہاں پھل پھول کثرت سے اُگائے جائیں۔ وہاں انسان صرف پلنے کے لیے جائے۔ گھناؤنی سے گھناؤنی بیماری کے مریض کو پہاڑ پر بھیج دیا جائے تاکہ وہ چشموں پر نہائے، پھل کھائے، چٹّان پر بیٹھ کر دھوپ تاپے، ہنسے اور کھیلے … اور پھر جب تندرست ہو جائے تو لوٹ آئے۔‘‘
اس آخری فقرے پر نرپیندر ناتھ کو بہت غصّہ آیا۔ منیکا لوٹ نہ آئے گی تو آخر کہاں چلی جائے گی۔ منیکا کا تصوّر چمک اُٹھا تھا۔ اسے اپنے صحن میں بچے ہنستے کھیلتے، کودتے دکھائی دے رہے تھے۔ اور وہ …… ان کی مغرور ماں، ان کے درمیان بیٹھی فرحت کے احساس سے ککُ ککُ کر رہی تھی۔ منیکا نے نرپیندر کو روکا بھی، لیکن وہ نہ مانا۔ اس نے اوتن کو خوب گالیاں دیں۔
’’کیا بک رہا ہے … فلاں فلاں کے جنے …‘‘
’’پھر وہ بولا ’’پھل تیری ماں کے پاس سے آئے گا اور پہاڑ پر تیرا باپ لے جائے گا۔ بچے تیرے کون ہوتے سنبھالیں گے اور دادی ماں…؟ نوکری میں پہلے ہی ایک چوتھائی تنخواہ پر چھٹی لے چکا ہوں۔ چھٹی کے نئے قوانین کے مطابق اوّل تو چھٹی ملے گی نہیں اور جو مل بھی گئی تو بغیر تنخواہ کے… نوکری کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا۔ اور پنشن میں فرق پڑے گا … اڈے پر نہ رہیں گے تو کل ہی کیرتی، زمین کی دوسری مینڈھ پر بھی اپنا ہل چلا دیں گے…‘‘
ایک لمحے کے لیے اوتن کو غصہ آیا، لیکن وہ غصہ اپنے آپ اتر گیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ وہ ان لوگوں کو زندہ رہنے کا راستہ بتا رہا تھا اور وہ اُسے گالیاں دے رہے تھے۔ وہ ان لوگوں پر اپنا آپ قربان کر رہا تھا۔ مخلوق کے لیے اس کے دل میں کتنا درد تھا… اوتن کا منھ سرخ ہو گیا … اوتن نے منیکا اور نرپیندر کو معاف کر دیا۔
لیکن اس کے معاف کر دینے سے کیا ہوتا تھا۔ منیکا اس کی باتیں سن کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ بچ جانے کے خیال نے اس کے دل میں طاقت پیدا کر دی تھی کہ وہ اپنے سوجے ہوئے پانو کے باوجود چلنے لگی۔ لیکن جب نرپیندر نے اسے اپنی مجبوریوں کا احساس دلایا تو وہ ایک دم بیٹھ گئی … کچھ دیر بعد اس پر بحران طاری ہو گیا … پھر ماں کا غرور اور تکبّر ہمیشہ کے لیے خاک میں مل گیا… اور اسی غنودگی کے عالم میں دوسرا واقعہ جو اوتن کو یاد آیا وہ ستیندر سانیال کے ہاں کی آگ تھی۔ سانیال،جو آبائی درباری تھا، کسی زمانے میں خاصے امیر تھے، لیکن چند قانونوں کی زد میں آ کر مفلس اور قلاش ہو گئے۔
اوبی باڑیا میں، یا اوتن کا گھر اچھا گنا جاتا تھا، یا سانیال کا۔ لیکن جب سے ستیندر کے چھوٹے بھائی راہو نے پہلے پہل ہوٹل کھولا اور بعد میں چینی کے برتن بنانے کا کارخانہ بنایا تب سے وہ مکان بھی رہن رکھ دیا گیا۔ یہی بہت تھا کہ جس شخص کے پاس مکان رہن رکھا گیا، اس نے انھیں وہاں رہنے کی اجازت دے دی ۔ جس آدمی کا دماغ ساہوکاری سے ہوٹل تک پہنچتا ہے اور جسے ہوٹل اور بھٹے کے درمیان اور کوئی کاروبار نظر نہیں آتا، وہ کیا کام کرے گا ……
جیسے عام طور پر ہوتا ہے … بھئی فلاں کاروبار شروع کر دو۔ ہاں بھئی شروع کر دو۔ اور یہ کوئی جانتا پوچھتا نہیں کہ جو آدمی کاروبار کرتا ہے، وہ اس کام کی استعداد بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ ہوٹل کنفیکشنری کے آسرے پر چلتا تھا۔ تمام ٹافیاں، کینڈی اور پیسٹری بہرے لے گئے۔ گاہکوں میں سے جو بہروں کو زیادہ ٹپ کرتے تھے، بہرے انھیں اور چیزیں اُٹھا کر سستے داموں میں دیدیتے۔ اسی طرح چینی کے برتنوں کا پورا بھٹہ ناہموار آنچ کی وجہ سے خراب ہو گیا۔
ایک دن اوتن اپنے ہاں بیٹھا نارنگی میں لوکاٹ کا پیوند لگا رہا تھا، کہ کوئی دوڑا دوڑا آیا— ’’آگ لگ گئی … آگ!‘‘
’’کہاں؟‘‘اوتن نے اپنا کام چھوڑتے ہوئے کہا— ’’کہاں آگ لگ گئی—؟‘‘
اوتن نے غور سے دیکھا۔ وہی راہو تھا جو دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔ بھاگتے ہوئے اس نے کہا
’’ہمارے ہاں، اوتن دادا… ہم کہیں کے نہ رہے۔‘‘
اوتن نے سانیالوں کے گھر کی طرف دیکھا۔ اس دن ہوا کا رُخ پچھم کی طرف تھا۔ سانیالوں کے مکان سے لیکر دور پچھم تک دھوئیں کے پرے تیرتے نظر آتے تھے۔ اگرچہ اوبی باڑیا میں اوتن کے مکان اور سانیال کے مکان کے درمیان دو تین ٹیلے تھے، لیکن آگ کا تیج وہیں سے محسوس ہو رہا تھا۔ دھوئیں کے ساتھ ایک ہلکی سی سُرخی بھی آسمان پر نظر آ رہی تھی۔ چونکہ ابھی دن تھا، اس لیے وہ سرخی اتنی تیکھی دکھائی نہ دیتی تھی۔
اوتن دونوں ٹیلے پھاند کر اوبی باڑیا کے دونوں طرف سانیال کے مکان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ آگ کے شعلے بڑی بڑی اور خون آلودہ زبانوں کی طرح لپک رہے تھے۔ خونخوار جانور کی طرح اس آگ نے اپنے شکاروں کو دہشت زدہ کر رکھا تھا، اور وہ مکان میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر دوڑ رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔ شعلوں کے پیچھے گھر کی نوجوان لڑکیوں اور بوڑھی عورتوں کے اُڑتے ہوئے بال شہابی ہو رہے تھے
پائیں تالاب میں پانی کم تھا۔ شکایت یہ تھی کہ پانی کم آتا تھا اور کیچڑ زیادہ لیکن آگ بجھانے کے لیے کیچڑ بھی غنیمت تھی۔ اوتن نے اپنے اردگرد دیکھا۔ اس وقت سورج پچھم میں آدھا کٹ چکا تھا، اس لیے پورب کی طرف سے گویا امڈے ہوئے اندھیرے کے ساتھ آگ کی روشنی مل کر ارغوانی ہو رہی تھی۔ اردگرد کھڑے لوگوں کے چہرے تمتما رہے تھے۔
لوگ باہر سے پانی، کیچڑ، دھول پھینکتے تھے، لیکن کسی کو اندر جانے کی ہمّت نہ پڑتی تھی۔ آگ لگ گئی …… آگ آگ … آگ
دور سے آواز آئی۔ معلوم ہوتا ہے۔ آگ لگ گئی ہے۔
اتنے کریہناک منظر کے باوجود ایک قہقہہ بلند ہوا۔
’’آگ … آگ… اور باہر کھڑے لوگ آگ میں گھرے ہوئے لوگوں کی سراسیمگی میں اضافہ کرنے لگے۔ چاروں طرف سے چیخ و پکار ہونے لگی۔ بچے اور عورتیں اور کچھ مرد بدستور مکان کے اندر اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے۔
اوتن بدستور باہر کھڑا ان سراسیمہ لوگوں کی طرف دیکھتا رہا۔ ترحم سے اس کا جی بھر آیا۔ اس وقت آگ کے اندر کودتا تو وہ خود جل جاتا …… وہ باہر کھڑا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ آگ کھڑکیوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے شعلوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے لوگوں کی طرف حیرت سے دیکھا — وہ سوچنے لگا۔
’’یہ لوگ بھاگ کیوں نہیں جاتے؟‘‘
اوتن نے پھر کجاوے کی صورت میں اپنا تن بدن سیکڑلیا اور خالی خولی نگاہوں سے تاڑ کے درختوں کی طرف دیکھنے لگا۔ ہوا کے تیز ہونے سے دھول سی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ مترمہاشے کی شکل دھندلی دھندلی سی نظر آنے لگی۔ اتنے میں ایک لاری آئی اور ہارن بجاتی ہوئی گریبوں کے پاس سے گزر گئی۔ اوتن کی ہمت جواب دے چکی تھی،جب کہ مترمہاشے نے اپنا سوال دُہرایا۔
’’تم کلکتے کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘
اوتن کے ہونٹوں پر غصّے اور کف کی ایک ہلکی سی تحریر دکھائی دی۔ وہ کچھ نہ بول سکا۔ کچھ دیر بعد اس کا کجاوہ اپنے آپ سیدھا ہونے لگا۔
مترمہاشے اس کا مطلب نہ سمجھا۔ اس نے سوچا، شاید اوتن آرام کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اپنی سلک کی چادر کا ایک پلّو اُٹھایا۔ اس نے اپنی آنکھیں پونچھیں اور — ’’من پگلو ہو گیو رے۔‘‘ گنناتا ہوا سامنے نظر آنے والی باڑی کی طرف چل دیا۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)