غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا ادھر کو آنکھیں ملا ملا کر
ہر گام سد رہ تھی بتخانے کی محبت
کعبے تلک تو پہنچے لیکن خدا خدا کر
نخچیر گہ میں تجھ سے جو نیم کشتہ چھوٹا
حسرت نے اس کو آخر مارا لٹا لٹا کر
اک لطف کی نگہ بھی ہم نے نہ چاہی اس سے
رکھا ہمیں تو ان نے آنکھیں دکھا دکھا کر
ناصح مرے جنوں سے آگہ نہ تھا کہ ناحق
گودڑ کیا گریباں سارا سلا سلا کر
اک رنگ پاں ہی اس کا دل خوں کن جہاں ہے
پھبتا ہے اس کو کرنا باتیں چبا چبا کر
جوں شمع صبح گاہی یک بار بجھ گئے ہم
اس شعلہ خو نے ہم کو مارا جلا جلا کر
اس حرف ناشنو سے صحبت بگڑ ہی جا ہے
ہر چند لاتے ہیں ہم باتیں بنا بنا کر
میں منع میرؔ تجھ کو کرتا نہ تھا ہمیشہ
کھوئی نہ جان تو نے دل کو لگا لگا کر
No comments:
Post a Comment