نہ ہو ہرزہ درا اتنا خموشی اے جرس بہتر
نہیں اس قافلے میں اہل دل ضبط نفس بہتر
نہ ہونا ہی بھلا تھا سامنے اس چشم گریاں کے
نظر اے
ابر تر آپھی نہ آوے گا برس بہتر
سدا ہو خار خار باغباں گل کا جہاں مانع
سمجھ اے
عندلیب اس باغ سے کنج قفس بہتر
برا ہے امتحاں لیکن نہ سمجھے تو تو کیا کریے
شہادت گاہ میں لے چل سب اپنے بوالہوس بہتر
سیہ کر دوں گا گلشن دود دل سے باغباں میں بھی
جلا آتش میں میرے آشیاں کے خار و خس بہتر
کیا داغوں سے رشک باغ اے صد آفریں الفت
یہ سینہ ہم کو بھی ایسا ہی تھا درکار بس بہتر
قدم تیرے چھوئے تھے جن نے اب وہ ہاتھ ہی سر ہے
مرے حق میں نہ ہونا ہی تھا یاں تک دسترس بہتر
عبث پوچھے ہے مجھ سے میرؔ میں صحرا کو جاتا ہوں
خرابی ہی پہ دل رکھا ہے جو تو نے تو بس بہتر
No comments:
Post a Comment