گھوڑے سے
خطاب
جاؤ پہاڑوں پر جاؤ
اودی نیلی وادی میں
اک پیاری سی گھوڑی ہے
کمرا
مجھے نہ
کھولو
مرے
اندھیرے میں
ایک
لڑکی
لباس
تبدیل کر رہی ہے
قاتل
آج بھی
اس کے
دونوں ہاتھ
لرز رہے
تھے
اور
ہر
انگلی کے سرے پر
ایک
ستارہ چمک رہا تھا
انکل
وہ اس
روز
بہت
رویا اور بہت ہنسا
جب پہلی
بار اسے معلوم ہوا
اس کے
باپ کے سارے دوست
بدمعاش
ہیں
ائیر
پورٹ
اگر تو
نہ جاتی
تو اے
جانِ جاں
مِرا
پیار
جاڑے کی
بارش میں
سی آف
کرنے کی لذّت سے
محروم
رہتا
پڑھے
لکھے لوگ
آپ پھر
آ گئے
اگر اب
خیالی ٹرینوں کے نیچے سے گزریں
تو بیوی
کا ہاتھ
اور
اولاد کا ساتھ بھی
چھوڑ
دیں
چرس نوش
کیا خبر
ہے
کہ کسی
روٹ سے بھاگی ہوئی بس
آخر شب
مرے بیڈ
روم میں گھس آئے کبھی
اور
پیٹرول کے نشے میں
کسی
اونگھتے صوفے سے کہے
آؤ
ٹوئسٹ کریں
نا
معلوم کی پہاڑیوں سے آواز
میں
سمندر کا ہاتھ ہوں
اور
میری ذمہ داریوں میں سے ایک
وہ شارک
ہے
جو
مشروم کی خوراک بنے
نئے
پرندے
جہاں
درختوں میں آگ لگنے سے
اژدھے
جل کے راکھ ہوتے ہیں
ان
پہاڑوں کی گھاٹیوں میں
ہمارے
بیٹے
نئے
پرندے تلاش کرنے
چلے گئے
ہیں
یہ بات
سر جان مارشل کو معلوم نہیں
یہ بات
اس کھلاڑی کو معلوم ہے
جو ہر
شے کو گیند بنا دیتا ہے
وہ
ہماری بہنوں کی سجی ہوئی کاریں دیکھتا ہے
اور
کھیلتا ہے
وہ
ہمارے بھانجوں کی پیدائش دیکھتا ہے
اور
کھیلتا ہے
لیڈی
ڈفرن
ہمیشہ
پھولتا پھلتا ترا وجود رہے
جو آج
کل تری باتوں میں سرسراتی ہے
وہ آگ
وقت گزرنے کے باوجود رہے
میں
چاہتا ہوں تری مامتا کی بانہوں میں
ہر ایک
سال نئے پھول کی بہار آئے
تمام
عمر تری چھاتیوں میں دودھ رہے
شیرانی
منے!
شادی کس
سے کرو گے
آپ سے
ہا ہا
ہا
شریر
کہیں کے
اب
سلمیٰ باجی
قبرستان
کا حصہ ہیں
No comments:
Post a Comment