رازیا
کا بھائی رافی
ٹن
کلاک نے
بہت جلد قدم آگے رکھ دیا
گھنٹے
مہینے سال
وہ ابھی
میری گود میں سو رہی تھی
اس کے
ننھے ہاتھوں کا لمس
اس کی
جھنجھناتی ہوئی ہنسی
رازیا
میں نے
بچپن میں تمھیں
ہاں
تمھیں یاد ہو گا
انکل
شیرا کے ساتھ مری کی سیر کرائی تھی
تمھیں
چنار کے درختوں میں شام کی اداسی دکھائی تھی
زمین پر
جمی ہوئی برف کیسی بھلی لگتی تھی تم کو
رازیا
اس سے
کس نے کہا تھا
کہ بادل
بن کے آئے
اور
ہماری آنکھوں میں جست بھر کے چلا جائے
وہ دن
مکڑیوں بھری دیوار کی طرح ہم پر گرا
رافی
بابو
امی جان
کے چشمے کا نمبر بدل گیا
رازیا
کے چہرے پر اداسی کا غبار
نہیں
میں تمھارے چہرے کو
برقی
فرنیس کی طرح دہکتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں
جیسا کہ
وہ ہوا کرتا تھا
میں
تمھارے خون کے لئے ایرانی گلاب لاؤں گا
مگر
ایسا کیوں ہے اس وقت کہ اے لڑکی
خوف کی
دھار میرے سینے میں اتر رہی ہے
گرہ کٹ
کے
بلیڈ کی
طرح
No comments:
Post a Comment