سورةالقلم
مکی سورہ ہے،
باون آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اثبات رسالت محمدیہ اس سورہ کا مرکزی مضمون
قرار دیا جاسکتا ہے۔ قلم اور اس سے لکھی جانے والی سطور کی قسم کھا کر تعلیم اور
ذریعہ تعلیم ، قلم کی اہمیت و عظمت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پھر ہر دور کے باطل کے
اعتراضات جو کہ مشرکین مکہ کی زبان سے ادا ہورہے تھے، ’’مذہبی جنونی‘‘، ’’اخلاقی اقدار سے عاری‘‘ وغیرہ ان کا
تسلی بخش جواب ہے کہ آپ نہ تو مجنون ہیں اور نہ ہی اخلاق سے عاری بلکہ آپ تو
اخلاقی اقدار کی بلندیوں کا مظہر ہیں۔ گمراہ اور ہدایت یافتہ کا فرق اللہ سے مخفی
نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نرمی اور ’’قابل قبول‘‘ بنانے کے
مطالبوں سے آپ متأثر نہ ہوں۔ اس قسم کے مطالبات کرنے والے ہمیشہ بے جا قسمیں
کھانے والے، بے وقعت، طعنہ باز اور چغلخور ہوتے ہیں۔ نیک کام سے روکنے والے،
انتہاء پسند اور گناہوں کی زندگی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ تشدد پرست اور حسب و نسب
کے اعتبار سے مشکوک ہوتے ہیں مال اور اولاد کے زعم میں مبتلا ہوکر ایسی حرکتیں
کرتے ہیں۔ قرآن کریم کو قصے کہانیاں بتاتے ہیں، ایسے لوگوں کی ہم معاشرہ میںناک
کاٹ کر رکھ دیں گے۔ پھر ایک زراعت پیشہ اور سخی انسان اور اس کی بخیل اولاد کا
تذکرہ کرکے بتایا کہ اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے بچنے والوں کا مقدر ہلاکت اور
تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ پھر جنت کے انعامات اور جہنم کے عذاب اور مصائب کا
تذکرہ، پھر نماز کی پابندی نہ کرنے والوں کی مذمت کہ قیامت میں ’’تجلی ساق‘‘ کے موقع پر وہ سجدہ بھی نہیں کرسکیں گے۔ پھر
ظالموںاور جھٹلانے والوں کو ڈھیل دے کر اچانک گرفت کرنے کے ضابطہ کو بیان کرکے دین
پر ثابت قدمی اور صبر کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کے ساتھ قرآن کریم کے عالم انسانیت
کے لئے نصیحت و رہنمائی کا پیغام ہونے کے اعلان کے ساتھ سورہ ختم ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment