Tuesday, 16 May 2017

'' La Jonti '' A Famous Urdu Short Story By Rajinder Singh Bedi

















لاجونتی

’’ ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے …‘‘
)یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں(
—— ایک پنجابی گیت
بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اُٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی ……
گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کر دیا گیا تھا۔ لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن باوا کے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوتی تھی ——
اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لیے مندر کے پاس محلّے ’’ملاّ شکور‘‘ میں ایک کمیٹی قائم ہو گئی اور گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے سندر لال بابو کو اس کا سکریٹری چُن لیا گیا۔ وکیل صاحب صدر چوکی کلاں کا بوڑھا محرر اور محلّے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھا کہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کرسکے گا۔ شاید اس لیے کہ سندر لال کی اپنی بیوی اغوا ہو چکی تھی اور اس کا نام تھا بھی لاجو —— لاجونتی۔
چنانچہ پربھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لال بابو، اس کا ساتھی رسالو اور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے —— ’’ہتھ لائیاں کمھلان نی لاجونتی دے بوٹے…‘‘ تو سندر لال کی آواز ایک دم بند ہو جاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سوچتا —— جانے وہ کہاں ہو گی، کس حال میں ہو گی، ہماری بابت کیا سوچ رہی ہو گی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟… اور پتھریلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے۔
اور اب تو یہاں تک نوبت آ گئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس کا غم اب دُنیا کا غم ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لیے لوک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کر دیا۔ اس کے باوجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا —— انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے، جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کُمھلا جاتا ہے، لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اُٹھنے بیٹھنے، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔
اور لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح، نازک سی دیہاتی لڑکی تھی۔ زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اُس کا اضطراب شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ کر اس کے بڑے سے پتّے پر کبھی ادھر اور کبھی اُدھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دُبلا پن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندر لال پہلے تو گھبرایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مار پیٹ تک سہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتا گیا اور اُس نے ان حدوں کا خیال ہی نہ کیا، جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔ چونکہ وہ دیر تک اُداس نہ بیٹھ سکتی تھی، اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرادینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اُس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اُٹھتی — ’’پھرمارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی …‘‘ صاف پتہ چلتا تھا، وہ ایک دم ساری مارپیٹ بھول چکی ہے۔ گانو کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں، بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں — ’’لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا، عورت جس کے قابو میں نہیں آتی ……‘‘ اور یہ مار پیٹ ان کے گیتوں میں چلی گئی تھی۔ خود لاجو گایا کرتی تھی۔ میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔ لیکن پہلی ہی فرصت میں لاجو نے شہر ہی کے ایک لڑکے سے لو لگالی اور اس کا نام تھا سندر لال، جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گانو۔‘‘ چلا آیا تھا اور جس نے دولھا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا —— ’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار۔ بیوی بھی چٹ پٹی ہو گی۔‘‘ لاجونتی نے سندر لال کی اس بات کو سن لیا تھا، مگر وہ بھول ہی گئی کہ سندر لال کتنے بڑے بڑے اور بھدّے سے بُوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ہے!
اور پربھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندر لال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا۔ ایک بار صرف ایک بار لاجو مل جائے تو میں اسے سچ مچ ہی دل میں بسا لوں اور لوگوں کو بتا دوں —— ان بے چاری عورتوں کے اغوا ہو جانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ فسادیوں کی ہوس ناکیوں کا شکار ہو جانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا، انھیں اپنا نہیں لیتا —— ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کر دینا چاہیے …… وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اور انھیں ایسا مرتبہ دینے کی پریرنا کرتا،جو گھر میں کسی بھی عورت، کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دیا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا —— انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیے جو ان کے ساتھ ہوئیں —— کیوں کہ ان کے دِل زخمی ہیں۔ وہ نازک ہیں، چھوئی موئی کی طرح —— ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائیں گے
گویا ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلّہ ملاّ شکور کی اس کمیٹی نے کئی پربھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔ نہ لوگوں کا شور، نہ ٹریفک کی اُلجھن۔ رات بھر چوکیداری کرنے والے کتّے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سر دے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سُن کر صرف اتنا کہتے —— او! وہی منڈلی ہے! اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابو سندر لال کا پروپگینڈا سنا کرتے۔ وہ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں، گوبھی کے پھولوں کی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاوند ان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منھ میں کچھ منمناتے چلے جاتے۔ یا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لے آنکھیں کھولتا اور ’’دل میں بساؤ‘‘ کے فریادی اور اندوہگین پروپگنڈ ے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سوجاتا۔
لیکن صبح کے سمے کان میں پڑا ہوا شبد بیکار نہیں جاتا۔ وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکّر لگاتا رہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے معنی کو بھی نہیں سمجھتا۔ پر گُنگناتا چلا جاتا ہے۔ اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ انھیں دنوں، جب کہ مِس مردولا سارا بائی، ہند اور پاکستان کے درمیان اغوا شدہ عورتیں تبادلے میں لائیں، تو محلّہ ملاّ شکور کے کچھ آدمی انھیں پھر سے بسانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان کے وارث شہر سے باہر چوکی کلاں پر انھیں ملنے کے لیے گئے۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر سرجھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دیے۔ رسالو اور نیکی رام اور سندر لال بابو کبھی ’’مہندر سنگھ زندہ باد‘‘ اور کبھی ’’سوہن لال زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے … اور وہ نعرے لگاتے رہے، حتیٰ کہ ان کے گلے سوکھ گئے ……
لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماں باپ، بہن اور بھائیوں نے اُنھیں پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھالیا؟ کنوئیں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟وہ بُزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لُٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھیں سے موت کو گھُور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک اُنھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی —— سہاگ ونتی —— سہاگ والی … اور اپنے بھائی کو اس جمّ غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی …… تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے …… اور بہاری چلاّ دینا چاہتا۔ پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا، جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔
لیکن فوجی ٹرک میں مس سارابائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں، ان میں لاجو نہ تھی۔ سندر لال نے امید و بیم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اترتے دیکھا اور پھر اس نے بڑی خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دوچند کر دیا۔ اب وہ صرف صبح کے سمے ہی پربھات پھیری کے لیے نہ نکلتے تھے، بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے، اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کالکا پرشاد صوفی کھنکاروں سے ملی جُلی ایک تقریر کر دیا کرتا اور رسالو ایک پیکدان لیے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔ لاؤڈاسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔ پھر کہیں نیکی رام، محرر چوکی کچھ کہنے کے لیے اُٹھتے۔ لیکن وہ جتنی بھی باتیں کہتے اور جتنے بھی شاستروں اور پُرانوں کا حوالہ دیتے، اُتنا ہی اپنے مقصد کے خلاف باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندر لال بابو اُٹھتا، لیکن وہ دو فقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ اس کا گلا رُک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کر پاتا۔ آخر بیٹھ جاتا۔ لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھا جاتی اور سندر لال بابو کی ان دو باتوں کا اثر، جو کہ اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں، وکیل کالکا پرشاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا۔ لیکن لوگ وہیں رو دیتے۔ اپنے جذبات کو آسودہ کر لیتے اور پھر خالی الذہن گھر لَوٹ جاتے ———
ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر پیپل کے ایک پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہو رہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصّہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا —— میں راجا رام چندر نہیں، جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسا لے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا —— ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔ ’’کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟‘‘——نارائن باوا نے کہا —— ’’یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘
کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رُک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اُٹھا ——
’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیے بابا!‘‘
’’چُپ رہو جی‘‘ —— ’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘ —— ’’خاموش!‘‘ مجمع سے آوازیں آئیں اور سندر لال نے بڑھ کر کہا —— ’’مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
پھر ملی جُلی آوازیں آئیں —— ’’خاموش!‘‘ —— ’’ہم نہیں بولنے دیں گے‘‘ اور ایک کونے میں سے یہ بھی آواز آئی —— ’’مار دیں گے۔‘‘
نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا —— ’’تم شاستروں کی مان مرجادا کو نہیں سمجھتے سندر لال!‘‘
سندر لال نے کہا —— ’’میں ایک بات تو سمجھتا ہوں بابا — رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے، لیکن سندر لال کی نہیں۔‘‘
انہی لوگوں نے جو ابھی مارنے پہ تلے تھے، اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں، اور پھر سے بیٹھتے ہوئے بول اُٹھے۔ ’’سُنو، سُنو، سُنو……‘‘
رسالو اور نیکی رام نے سندر لال بابو کو ٹہوکا دیا اور سندر لال بولے— ’’شری رام نیتا تھے ہمارے۔ پر یہ کیا بات ہے بابا جی! انھوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ سمجھ لیا، مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کر پائے؟‘‘
نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا — ’’اِس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال ! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘
’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا —— ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اُسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا… آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے … اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے … اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘
آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے… سیتا … لاجونتی … اور سندر لال بابو نے رونا شروع کر دیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سُرخ جھنڈے اُٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کے چپکا دیے تھے اورپھر وہ سب ’’سندر لال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا — ’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ ایک طرف سے آواز آئی — ’’شری رام چندر ‘‘……
اور پھر بہت سی آوازیں آئیں— ’’خاموش! خاموش!‘‘ اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ بہت سے لوگ جلوس میں شامل ہو گئے، جس کے آگے آگے وکیل کالکا پرشاد اور حکم سنگھ محرر چوکی کلاں، جا رہے تھے، اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے —— اور ان کے درمیان کہیں سندر لال جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے۔ آج اس کے دل کو بڑی ٹھیس لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گا رہے ۔
’’ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے…!‘‘
ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ابھی صبح بھی نہیں ہو پائی تھی اور محلہ ملاّ شکور کے مکان 414 کی بدھوا ابھی تک اپنے بستر میں کربناک سی انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندر لال کا ’’گرائیں‘‘ لال چند، جسے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سندر لال اور خلیفہ کالکا پرشاد نے راشن ڈپو لے دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنی گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا
’’بدھائی ہو سندر لال۔‘‘
سندر لال نے میٹھا گڑ چلم میں رکھتے ہوئے کہا — ’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘
’’میں نے لاجو بھابی کو دیکھا ہے۔‘‘
سندر لال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا —— ’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘ اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑ دیا۔
’’واگہ کی سرحد پر۔‘‘
سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا ’’کوئی اور ہو گی۔‘‘
لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں بھیّا، وہ لاجو ہی تھی، لاجو …‘‘
’’تم اسے پہچانتے بھی ہو؟‘ سندر لال نے پھر سے میٹھے تمباکو کو فرش پر سے اُٹھاتے اور ہتھیلی پر مسلتے ہوئے پوچھا،اور ایسا کرتے ہوئے اس نے رسالو کی چلم حُقّے پر سے اُٹھا لی اور بولا— ’’بھلا کیا پہچان ہے اس کی؟‘‘
’’ایک تیندولہ ٹھوڑی پر ہے، دوسرا گال پر—‘‘
’’ہاں ہاں ہاں‘‘ اور سندر لال نے خود ہی کہہ دیا ’’تیسرا ماتھے پر۔‘‘ وہ نہیں چاہتا تھا، اب کوئی خدشہ رہ جائے اور ایک دم اسے لاجونتی کے جانے پہچانے جسم کے سارے تیندولے یاد آ گئے، جو اس نے بچپنے میں اپنے جسم پر بنوا لیے تھے، جو ان ہلکے ہلکے سبز دانوں کی مانند تھے جو چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتے ہیں اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہی وہ کمھلانے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان تیندولوں کی طرف انگلی کرتے ہی لاجونتی شرما جاتی تھی — اور گم ہو جاتی تھی، اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی۔ گویا اس کے سب راز کسی کو معلوم ہو گئے ہوں اور کسی نامعلوم خزانے کے لُٹ جانے سے وہ مفلس ہو گئی ہو … سندر لال کا سارا جسم ایک اَن جانے خوف، ایک اَن جانی محبت اور اس کی مقدس آگ میں پھُنکنے لگا۔ اس نے پھر سے لال چند کو پکڑ لیا اور پوچھا
’’لاجو  واگہ کیسے پہنچ گئی؟‘‘
لال چند نے کہا — ’’ہند اور پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہو رہا تھا نا ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا — ؟‘‘ سندر لال نے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ہوا پھر؟‘‘
رسالو بھی اپنی چارپائی پر اُٹھ بیٹھا اور تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے بولا— ’’سچ مچ آ گئی ہے لجونتی بھابی؟‘‘
لال چند نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’واگہ پر سولہ عورتیں پاکستان نے دے دیں اور اس کے عوض سولہ عورتیں لے لیں —لیکن ایک جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہمارے والنٹیر اعتراض کر رہے تھے کہ تم نے جو عورتیں دی ہیں، ان میں ادھیڑ، بوڑھی اور بیکار عورتیں زیادہ ہیں۔ اس تنازع پر لوگ جمع ہو گئے۔ اس وقت اُدھر کے والنٹیروں نے لاجو بھابی کو دکھاتے ہوئے کہا — ’’تم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ دیکھو … دیکھو … جتنی عورتیں تم نے دی ہیں، ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی ؟’’ اور وہاں لاجو بھابی سب کی نظروں کے سامنے اپنے تیندولے چھُپا رہی تھی۔‘‘
پھر جھگڑا بڑھ گیا ۔ دونوں نے اپنا اپنا ’’مال‘‘ واپس لے لینے کی ٹھان لی۔ میں نے شور مچایا — ’’لاجو — لاجو بھابی …‘‘ مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مار مار کے بھگا دیا۔
اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا، جہاں اسے لاٹھی پڑی تھی۔ رسالو اور نیکی رام       چُپ چاپ بیٹھے رہے اور سندر لال کہیں دور دیکھنے لگا۔ شاید سوچنے لگا۔ لاجو آئی بھی پر نہ آئی… اور سندر لال کی شکل ہی سے جان پڑتا تھا، جیسے وہ بیکانیر کا صحرا پھاند کر آیا ہے اور اب کہیں درخت کی چھانو میں، زبان نکالے ہانپ رہا ہے۔ مُنھ سے اتنا بھی نہیں نکلتا — ’’پانی دے دو۔‘‘ اسے یوں محسوس ہوا، بٹوارے سے پہلے بٹوارے کے بعد کا تشدّد ابھی تک کارفرما ہے۔ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اب لوگوں میں پہلا سا دریغ بھی نہیں رہا۔ کسی سے پوچھو، سانبھر والا میں لہنا سنگھ رہا کرتا تھا اور اس کی بھابی بنتو — تو وہ جھٹ سے کہتا ’’مر گئے‘‘ اور اس کے بعد موت اور اس کے مفہوم سے بالکل بے خبر بالکل عاری آگے چلاجاتا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے ٹھنڈے دل سے تاجر، انسانی مال، انسانی گوشت اور پوست کی تجارت اور اس کا تبادلہ کرنے لگے۔ مویشی خریدنے والے کسی بھینس یا گائے کا جبڑا ہٹا کر دانتوں سے اس کی عمر کا اندازہ کرتے تھے۔
اب وہ جوان عورت کے روپ، اس کے نکھار، اس کے عزیز ترین رازوں، اس کے تیندولوں کی شارع عام میں نمائش کرنے لگے۔ تشدّد اب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔ پہلے منڈی میں مال بکتا تھا اور بھاؤ تاؤ کرنے والے ہاتھ ملا کر اس پر ایک رومال ڈال لیتے اور یوں ’’گپتی‘‘ کر لیتے۔ گویا رومال کے نیچے انگلیوں کے اشاروں سے سودا ہو جاتا تھا۔ اب ’’گپتی‘‘ کا رومال بھی ہٹ چکا تھا اور سامنے سودے ہو رہے تھے اور لوگ تجارت کے آداب بھی بھول گئے تھے۔ یہ سارا ’’لین دین‘‘ یہ سارا کاروبار پُرانے زمانے کی داستان معلوم ہو رہا تھا، جس میں عورتوں کی آزادانہ خرید و فروخت کا قصّہ بیان کیا جاتا ہے۔ از بیک اَن گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑا اُن کے جسموں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی عورت کے جسم کو اُنگلی لگاتا ہے تو اس پر ایک گلابی سا گڑھا پڑ جاتا ہے اور اس کے اردگرد ایک زرد سا حلقہ اور پھر زردیاں اور سُرخیاں ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے دوڑتی ہیں … ازبیک آگے گزر جاتا ہے اور ناقابلِ قبول عورت ایک اعترافِ شکست، ایک انفعالیت کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازار بند تھامے اور دوسرے سے اپنے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے سِسکیاں لیتی ہے
سندر لال امرتسر (سرحد) جانے کی تیاری کرہی رہا تھا کہ اسے لاجو کے آنے کی خبر ملی۔ ایک دم ایسی خبر مل جانے سے سندر لال گھبرا گیا۔ اس کا ایک قدم فوراً دروازے کی طرف بڑھا، لیکن وہ پیچھے لوٹ آیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ روٹھ جائے اور کمیٹی کے تمام پلے کارڈوں اور جھنڈیوں کو بچھا کر بیٹھ جائے اور پھر روئے، لیکن وہاں جذبات کا یوں مظاہرہ ممکن نہ تھا۔ اُس نے مردانہ وار اس اندرونی کشاکش کا مقابلہ کیا اور اپنے قدموں کو ناپتے ہوئے چوکی کلاں کی طرف چل دیا،کیونکہ وہی جگہ تھی جہاں مغویہ عورتوں کی ڈلیوری دی جاتی تھی۔
اب لاجو سامنے کھڑی تھی اور ایک خوف کے جذبے سے کانپ رہی تھی۔ وہی سندر لال کو جانتی تھی،اس کے سوائے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ پہلے ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتا تھا اور اب جب کہ وہ ایک غیر مرد کے ساتھ زندگی کے دن  بِتا کر آئی تھی، نہ جانے کیا کرے گا؟ سندر لال نے لاجو کی طرف دیکھا۔ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے تھی اور بائیں بکّل مارے ہوئے تھی … عادتاً محض عادتاً —— دوسری عورتوں میں گھل مل جانے اور بالآخر اپنے صیّاد کے دام سے بھاگ جانے کی آسانی تھی اور وہ سندر لال کے بارے میں اتنا زیادہ سوچ رہی تھی کہ اسے کپڑے بدلنے یا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ ہندو اور مسلمان کی تہذیب کے بنیادی فرق — دائیں بُکل اور بائیں بُکل میں امتیاز کرنے سے قاصر رہی تھی۔ اب وہ سندر لال کے سامنے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی، ایک اُمید اور ایک ڈر کے جذبے کے ساتھ
سندر لال کو دھچکا سا لگا۔ اس نے دیکھا لاجونتی کا رنگ کچھ نکھر گیا تھا اور وہ پہلے کی بہ نسبت کچھ تندرست سی نظر آتی تھی۔ نہیں ۔ وہ موٹی ہو گئی تھی — سندر لال نے جو کچھ لاجو کے بارے میں سوچ رکھا تھا، وہ سب غلط تھا۔ وہ سمجھتا تھا غم میں گھُل جانے کے بعد لاجونتی بالکل مریل ہو چکی ہو گی اور آواز اس کے منھ سے نکالے نہ نکلتی ہو گی۔ اس خیال سے کہ وہ پاکستان میں بڑی خوش رہی ہے، اسے بڑا صدمہ ہوا،لیکن وہ  چُپ رہا کیونکہ اس نے  چُپ رہنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اگرچہ وہ نہ جان پایا کہ اتنی خوش تھی تو پھر چلی کیوں آئی؟اس نے سوچا شاید ہند سرکار کے دباؤ کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے خلاف یہاں آنا پڑا —— لیکن ایک چیز وہ نہ سمجھ سکا کہ لاجونتی کا سنولایا ہوا چہرہ زردی لیے ہوئے تھا اور غم، محض غم سے اس کے بدن کے گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ غم کی کثرت سے ’’موٹی‘‘ ہو گئی تھی اور ’’صحت مند‘‘ نظر آتی تھی، لیکن یہ ایسی صحت مندی تھی جس میں دو قدم چلنے پر آدمی کا سانس پھول جاتا ہے…‘‘
مغویہ کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالنے کا تاثر کچھ عجیب سا ہوا۔ لیکن اس نے سب خیالات کا ایک اثباتی مردانگی سے مقابلہ کیا اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ کسی نے کہا —— ’’ہم نہیں لیتے مسلمران (مسلمان) کی جھوٹی عورت ——‘‘
اور یہ آواز رسالو، نیکی رام اور چوکی کلاں کے بوڑھے محرر کے نعروں میں گُم ہو کر رہ گئی ۔ ان سب آوازوں سے الگ کالکا پرشاد کی پھٹتی اور چلاّتی آواز آ رہی تھی۔ وہ کھانس بھی لیتا اور بولتا بھی جاتا۔ وہ اس نئی حقیقت، اس نئی شدھی کا شدّت سے قائل ہو چکا تھا۔  یُوں معلوم ہوتا تھا آج اس نے کوئی نیا وید، کوئی نیا پران اور شاستر پڑھ لیا ہے اور اپنے اس حصول میں دوسروں کو بھی حصّے دار بنانا چاہتا ہے… ان سب لوگوں اور ان کی آوازوں میں گھِرے ہوئے لاجو اور سندر لال اپنے ڈیرے کو جا رہے تھے اور ایسا جان پڑتا تھا جیسے ہزاروں سال پہلے کے رام چندر اور سیتا کسی بہت لمبے اخلاقی بن باس کے بعد اجودھیا لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو لوگ خوشی کے اظہار میں  دیپ مالا کر رہے ہیں، اور دوسری طرف انھیں اتنی لمبی اذیّت دیے جانے پر تاسف بھی۔
لاجونتی کے چلے آنے پر بھی سندر لال بابو نے اسی شدّ و مد سے ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو جاری رکھا۔ اس نے قول اور فعل دونوں اعتبار سے اسے نبھا دیا تھا اور وہ لوگ جنھیں سندر لال کی باتوں میں خالی خولی جذباتیت نظر آتی تھی، قائل ہونا شروع ہوئے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خوشی تھی اور بیشتر کے دل میں افسوس۔ مکان 414 کی بیوہ کے علاوہ محلہ ملاّ شکور کی بہت سی عورتیں سندر لال بابو سوشل ورکر کے گھر آنے سے گھبراتی تھیں۔
لیکن سندر لال کو کسی کی اعتنا یا بے اعتنائی کی پروا نہ تھی۔ اس کے دل کی رانی آ چکی تھی اور اس کے دل کا خلا پٹ چکا تھا۔ سندر لال نے لاجو کی سورن مورتی کو اپنے دل کے مندر میں استھاپت کر لیا تھا اور خود دروازے پر بیٹھا اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔ لاجو جو پہلے خوف سے سہمی رہتی تھی، سندر لال کے غیر متوقع نرم سلوک کو دیکھ کر آہستہ آہستہ کھُلنے لگی۔
سندرلال، لاجونتی کو اب لاجو کے نام سے نہیں پکارتا تھا۔ وہ اسے کہتا تھا ’’دیوی!‘‘اور لاجو ایک اَن جانی خوشی سے پاگل ہوئی جاتی تھی۔ وہ کتنا چاہتی تھی کہ سندر لال کو اپنی واردات کہہ سنائے اور سناتے سناتے اس قدر روئے کہ اس کے سب گناہ دھُل جائیں۔ لیکن سندرلال، لاجو کی وہ باتیں سننے سے گریز کرتا تھا اور لاجو اپنے کھُل جانے میں بھی ایک طرح سے سِمٹی رہتی۔ البتہ جب سندر لال سوجاتا تو اسے دیکھا کرتی اور اپنی اس چوری میں پکڑی جاتی۔ جب سندر لال اس کی وجہ پوچھتا تو وہ ’’نہیں‘‘ ’’یو نہیں‘‘ ’’اونھوں‘‘ کے سوا اور کچھ نہ کہتی اور سارے دن کا تھکا ہارا سندر لال پھر اونگھ جاتا… البتہ شروع شروع میں ایک دفعہ سندر لال نے لاجونتی کے ’’سیاہ دنوں‘‘ کے بارے میں صرف اتنا سا پوچھا تھا ——
’’کون تھا وہ؟‘‘
لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا —— ’’جُمّاں‘‘ —— پھر وہ اپنی نگاہیں سندر لال کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندر لال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلارہا تھا۔ لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کر لیں اور سندر لال نے پُوچھا ——
’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مارتا تو نہیں تھا؟‘‘
لاجونتی نے اپنا سر سندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں‘‘… اور پھر بولی ’’وہ مارتا نہیں تھا، پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی … اب تو نہ مارو گے؟‘‘
سندر لال کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا —— ’’نہیں دیوی! اب نہیں … نہیں ماروں گا…‘‘
’’دیوی!‘‘ لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔
اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی، لیکن سندر لال نے کہا —— ’’جانے دو بیتی باتیں۔ اس میں تمھارا کیا قصور ہے؟ اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیں دیتا۔ وہ تمھاری ہانی نہیں کرتا، اپنی کرتا ہے۔‘‘
اور لاجونتی کی من کی من ہی میں رہی۔ وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’’دیوی‘‘ کا بدن ہو چکا تھا۔لاجونتی کا نہ تھا۔ وہ خوش تھی بہت خوش ۔ لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔ وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی، جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں میں کوئی آہٹ پاکر ایکا ایکی اس کی طرف متوجہ ہو جائے
جب بہت سے دن بیت گئے تو خوشی کی جگہ پورے شک نے لے لی۔ اس لیے نہیں کہ سندر لال بابو نے پھر وہی پرانی بدسلوکی شروع کر دی تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ لاجو سے بہت ہی اچھا سلوک کرنے لگا تھا۔ ایسا سلوک جس کی لاجو متوقع نہ تھی … وہ سندر لال کی، وہ پرانی لاجو ہو جانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑ پڑتی اور مولی سے مان جاتی۔ لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔ سندر لال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ  — لاجونتی کانچ کی کوئی چیز ہے، جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی… اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہو سکتی ہے، پر لاجو نہیں ہو سکتی۔ وہ بس گئی، پر اُجڑ گئی … سندر لال کے پاس اُس کے آنسو دیکھنے کے لیے آنکھیں تھیں اور نہ آہیں سننے کے لیے کان!… پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّ شکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اُسی آواز میں گاتا رہا ——
’’ہتھ لائیاں کملان نی، لاجونتی دے بُوٹے…‘‘

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)