امّاں کے نام
سلمیٰ اعوان
میں اور امّاں دو پکی گُوری سہیلیاں، اوپر تلے کی
جیسے دو بہنیں، ایک گھر میں مثل دو سوکنیں۔ میرے بہت سے رشتوں کی ابتدا اور انتہا
ان کی ذات سے شروع ہو کر ان پر ہی ختم ہوتی تھی۔ صبح اگر پانی پت کا میدان گرم
ہوتا تو شام کو ہم گھٹنے سے گھٹنا جوڑے اپنا ‘کیتھارس’سیشن جاری کرتیں۔ پھر دلکی
چال چلتی امّاں کو برین ہیمبرج ہو گیا اور میں نے پورے پچّیس دن ان کا گو موت
اُٹھایا۔
تب میں نے خود سے کہا ’’چلو یہ تندرست ہوں گی تو
کہوں گی کہ ہمارا آپ کا حساب کتاب برابر ہوا۔ ‘‘ پر وہ مجھے دکھ اور کرب کے
لامتناہی سمندر میں دھکیل کر خود فرار ہو گئیں۔
میں چھم چھم روتی ہوں اور لمبے لمبے سجدے کرتی
ہوں۔
پر مجھے یقین ہے کہ وہ اگر جنت کی کھڑکی سے جھانک
کر میرے آنسوؤں کو دیکھ لیں تو ضرور کہیں گی۔ ’’چل ہٹ جھوٹی کہیں کی۔
یاروں کے لیے روتی ہے اور نام میرا لیتی ہے
اغراض کے لئے جھکتی ہے اور احسان مجھ پر دھرتی ہے
No comments:
Post a Comment