میں
نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
پا بہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں
میں
اپنے گیتوں کی عظمت سے شرمندہ
ہوں
سرحدوں نے کبھی جب پکارا تمہیں
آنسووں سے تمہیں الوداعیں کہیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار کر بھی نہ جی سے اتارا تمہیں
جس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در دہاں آئے تھے
طوق در گردنوں پا بہ جولاں گئے
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ کو ملنے کو تم آئے
تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
انکی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
انکی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
جیسے برطانوی راج میں ڈوگرے
جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں
تم بھی ان سے ذرا مختلف تو نہیں
حق پرستوں پہ الزام انکے بھی تھے
وحشیوں سے چلن عام انکے بھی تھے
رائفلیں وردیاں نام انکے بھی تھے
آج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کے ایما پر ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں
غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کے آگے ہو تم سرنگوں غازیو
آج شاعر پہ ہی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں۔
آج تم آئینہ ہو میرے سامنے
پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں
اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو
جب کوئی عہد و پیماں سلامت نہیں
اب کسی کنج میں بے اماں شہر کی
کوئی دل کوئی داماں سلامت نہیں
تم نے دیکھا ہے سر سبز پیڑوں پہ
اب
سارے برگ و ثمر خار و خس ہو گئے
اب کہاں خوبصورت پرندوں کی رت
جو نشیمن تھے اب وہ قفس ہو گئے
صحن گلزار خاشاک کا ڈھیر
اب درختوں کے تن پر قبائیں کہاں
سرو و شمشاد سے قمریاں اڑ گئیں
شاخ زیتون پر فاختائیں کہاں
شیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکا
رند بدنام کوئے خرابات میں
فاصلہ ہو تو ہو فرق کچھ بھی نہیں
فتوۂ دیں میں ہو اور کفر کی بات
میں
اب تو سب راز داں ہمنوا نامہ بر
کوئے جانا ں کے سب آشنا جا چکے
کوئی زندہ گواہی بچی ہی نہیں
سب گنہگار سب پارسا جا چکے
اب کوئی کس طرح قم بہ اذنی کہے
اب کہ جب شہر کا شہر سنسان ہے
حرف عیسیٰ نہ صور اسرافیل ہے
حشر کا دن قیامت کا میدان ہے
مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں
اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو
کیا
کب سے توقیر لالہ قبائی گئی
کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا
No comments:
Post a Comment