روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات
کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات
نے بخت کی یاری ہے نہ کچھ جذب ہے کامل
وہ آپھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات
دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک
یک بار تو اس شوخ سے یارب ہو ملاقات
جاتی ہے غشی بھی کبھو آتے ہیں بخود بھی
کچھ لطف اٹھے بارے اگر اب ہو ملاقات
وحشت ہے بہت میرؔ کو مل آیئے چل کر
کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات
سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو جاناں سمیت
تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت
تنگ ہو جاوے گا عرصہ خفتگان خاک پر
گر ہمیں زیر زمیں سونپا دل نالاں سمیت
باغ کر دکھلائیں گے دامان دشت حشر کو
ہم بھی واں آئے اگر مژگان خون افشاں سمیت
قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے
سب کو مارا عشق نے مجھ خانماں ویراں سمیت
اٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میرؔ
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
No comments:
Post a Comment