پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات
اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ
گذری ہے امیدوار ہر رات
مکھڑے سے اٹھائیں ان نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات
تو پاس نہیں ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات
کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات
واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گذر رات
ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گذری ہمیں ساری بے خبر رات
کیا سوز جگر کہوں میں ہمدم
آیا جو سخن زبان پر رات
صحبت یہ رہی کہ شمع روئی
لے شام سے تا دم سحر رات
کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات
دن وصل کا یوں کٹا کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات
کل تھی شب وصل اک ادا پر
اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات
جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات
کرنے لگا پشت چشم نازک
سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات
تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات
پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میرؔ کس قدر رات
No comments:
Post a Comment