ساتھ ہو اک بے کسی کے عالم ہستی کے بیچ
باز خواہ خوں ہے میرا گو اسی بستی کے بیچ
عرش پر ہے ہم نمد پوشان الفت کا دماغ
اوج دولت کا سا ہے یاں فقر کی پستی کے بیچ
ہم سیہ کاروں کا ہنسنا وہ ہے میخانے کی اور
آ گئے ہیں میرؔ مسجد میں چلے مستی کے بیچ
ہونے لگا گذار غم یار بے طرح
رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح
اب کچھ طرح نہیں ہے کہ ہم غم زدے ہوں شاد
کہنے لگا ہے منھ سے ستمگار بے طرح
جاں بر تمھارے ہاتھ سے ہو گا نہ اب کوئی
رکھنے لگے ہو ہاتھ میں تلوار بے طرح
فتنہ اٹھے گا ورنہ نکل گھر سے تو شتاب
بیٹھے ہیں آ کے طالب دیدار بے طرح
لوہو میں شور بور ہے دامان و جیب میرؔ
بپھرا ہے آج دیدۂ خونبار بے طرح
No comments:
Post a Comment