((شب
برات کی حقیقت))
<حصہ اول>
سب سے پہلے تو یہ جاننا چاهیے کہ شب برات کے معنی کیا هیں.؟
شب فارسی کا لفظ هے اور برات عربی زبان کا.
اس لیے قرآن و احادیث میں تو یہ نام مل نہیں سکتا.
قرآن میں جہاں کہیں بھی یہ لفظ آیا هے اسکے معنی بیزاری کے هیں.
"براة من الله و رسوله إلى الذين عاهدتم من المشركين"
بیزاری کا حکم اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمھارا معاهده
تها.
(سورۃ براءت - 1)
"فلما افلت قال يقوم انى برى مما تشركون"
پھر وہ ڈوب گیا، کہا اے قوم میں بیزار هوں ان چیزوں سے جنھیں تم شریک ٹہراتے هو.
(سوره الأنعام - 79)
"فلما تبين له انه عدو لله تبرأ منه"
جب (ابراهيم) پر یہ ظاہر هو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن هے تو اس سے بیزار هوگئے.
(سوره براءات - 114)
اسکے علاوہ بھی سوره البقرة، الانعام، براءت، یونس اور الممتحنة کے علاوہ دیگر
مقامات پر جہاں بھی یہ الفاظ (براءت، بری اور تبرا) آئے هیں انکے معنی اور مفہوم
بیزاری کے ھی هیں.
یعنی یہ رات بیزاری (تبرا) کی رات هے
اس رات منافقین (شیعہ روافض) اپنے فرضی امام کی پیدائش کی خوشیاں مناتے اور صحابہ
کرام اور دیگر مسلمانوں پر تبرا کرتے هیں.
شیعوں کی مشہور کتاب (تحفہ العوام) میں لکھا هے کہ
"جملہ متذکرہ برکات اس شب کے صرف اس لیے هیں کہ جناب صاحب امر علیہ السلام کی
اس شب ولادت هے"
صاحب امر سے مراد شیعوں کے بارهویں فرضی امام مہدی هیں.
(جبکہ حقیقت یہ هے کے انکے گیارھویں امام حسن عسکری بغیر اولاد کے فوت ھوئے تهے)
انکی دیگر کتب میں اور خمینی کے نظریے کے مطابق،
"امام مہدی ظاهر هو کر روئے زمین پر مومنین کی حکومت قائم کریں گے اور
(معاذاللہ) ابوبکر و عمر کی لاشیں قبروں سے نکال کر انھیں پھانسی دینگے"
اس رات یہ حضرات غاروں، دریاؤں اور کنوؤں پہ جاکر اپنے امام کے نام پر پرچیاں
ڈالتے هیں اور درخواست کرتے هیں کہ للہ اب آپ تشریف لے آئیے.
الغرض اس شب میں وہ اپنے فرضی امام کی پیدائش کی خوشی میں حلوے پکاتے اور آتش بازی
اور چراغاں کرتے هیں.
اور
پھر اس خوف سے کہ اهل سنت اس رسم کے خلاف نا هوجائیں تو اس کے لیے مختلف کہانیاں
اور روایتیں گھڑ دی گئیں.
جبکہ حقیقت یہ هے کہ پانچویں صدی سے پہلے کی کسی مستند کتاب میں لفظ "شب
برات" کا کوئی زکر نہیں هے.
((شب براءت کی حقیقت))
<حصہ دوئم>
شب برات کی فضیلت ثابت کرنے کی لیے جو کہانیاں اور روایات گھڑی گئیں انکا جائزہ
لینے سے قبل ان قرآنی آیات پر غور کرتے هیں جو شب برات سے منسوب کی جاتی هیں.
وہ هیں سورة الدخان کی ابتدائی آیات.
انکا صرف ترجمہ پیش ھے اور وہ بھی احمد رضا خان بریلوی کا تاکہ شب برات منانے
والوں کو کوئی شک نا رهے.
"بیشک ھم نے اسے برکت والی رات میں اتارا هے، بیشک ھم ڈر سنانے والے هیں، اس
میں بانٹ دیا جاتا ھے هر حکمت والا کام، ھمارے پاس کے حکم سے، بیشک ھم بھیجنے والے
هیں، تمھارے رب کی طرف سے رحمت، بیشک وهی سنتا جانتا هے"
سورة الدخان مکہ معظمہ میں معراج سے پہلے نازل ھوئی. اس وقت تک نماز پنچ گانہ بھی
فرض نہیں ھوئی تھی اور روزے 2 هجری کے بعد فرض هوئے، اور ناهی مکہ میں بقیع نام کا
کوئی قبرستان تھا.
اس طرح سے ان آیات اور رات میں قبرستان کا چکر لگانا اور دن میں روزه رکهنا،
ان تمام باتوں کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں بنتا.
بہرحال ان آیات میں 4 امور کا زکر کیا گیا هے،
1. یہ رات مبارک رات هے.
2. اس مبارک رات میں قرآن نازل کیا گیا.
3. اس رات میں تمام احکامات کے فیصلے کیے جاتے هیں.
اس رات میں نزول رحمت هوتا هے.
یہ رات کب اور کس مہینے میں آتی هے.؟
ان امور میں یہ آیات خاموش هیں.
قرآن پاک کا ایک یہ بھی خاص اسلوب ھے کہ اهم بات کا ایک سے زائد بار زکر کیا جاتا
هے.
اگر ایک مقام پر مجملا زکر ھے تو دوسرے مقام پر اسکی تشریح کی گئی هے. اسی لیے اس
رات کا مزید زکر سورة القدر میں ھے کہ
"بیشک هم نے اسے شب قدر میں اتارا، اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا هے، شب قدر
هزار مہینوں سے بہتر هے، اس میں فرشتے اور جبریل اترتے هیں اپنے رب کے حکم سے هر
کام کے لیے، وہ سلامتی ھے صبح چمکنے تک"
ان آیات میں بھی ان هی امور کا زکر کیا گیا هے.
1. اس رات میں قرآن نازل کیا گیا.
2. اس رات میں تمام امور کے فیصلے کیے جاتے هیں.
3. اس رات میں فرشتے و جبریل (رحمت) نازل هوتے هیں.
4. اس رات میں صبح صادق تک رحمت و سلامتی کا نزول هوتا هے.
اب ظاهر ھے کہ یہ ایک هی شب کا زکر ھے، اور قرآن نے بتا دیا ھے کہ یہ رات رمضان
میں آتی هے.
"رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا"
پھر آگے فرمایا،
"تو تم میں سے جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اسکے روزے رکهے"
(البقرة - 185)
یعنی یہ واضح هو گیا کہ سوره دخان هو یا سوره قدر دونوں میں جس رات کا زکر ھے وه
ایک ھی ھے جو رمضان کے مہینے میں آتی هے.
اسکے باوجود جو مولوی حضرات سوره دخان کی آیات کو شب برات کی فضیلت میں جوڑتے هیں
انکے لیے هدایت کی دعا ھی کی جا سکتی هے.
اس سلسلے میں صحابہ سے لے کر آج تک کے مؤقر علماء مفسرین اور محدثین کے اقوال تو
کیا اگر نام بھی لکھے جائیں تو فہرست بہت طویل ھوجائے گی.
جنکا یہ متفقہ فیصلہ ھے کے لیلتہ المبارکہ اور لیلتہ القدر ایک ھی رات ھے جو رمضان
المبارك کے مہینے میں آتی هے.
البتہ تفسیر ابن عباس میں عکرمہ کے ذریعے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول اس آیت
"فیها یفرق کل امر حکیم" سے مراد نصف شعبان کی رات هے..........
لیکن امام ذہبی میزان میں اور امام ابن عدی کامل میں اسے منکر قرار دیتے هیں.
(میزان الاعتدال - 2/255)
بعض محدثین نے عکرمہ کو ثقہ قرار دیا ھے اور اس جھوٹ کا واضح عکرمہ کے شاگرد
اسمعیل بن نفر کو قرار دیا هے.
ان دونوں کے حالات کی تفصیلات امام ذہبی کی میزان میں مل جائیں گی.
یہاں طوالت کی گنجائش نہیں هے.
بہرحال یہ روایت منکر ھے اسکا سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق
نہیں هے.
لیکن کیونکہ اس میں ابن عباس اور عکرمہ کا نام ھے تو بعض مفسرین نے اس قول کو لے
لیا اور اسی وجہ سے خاص طور پر هند و پاک کے کچھ لوگ اسکو سینے سے لگائے بیٹھے هیں
اور عوام کو دھوکہ دے رهے هیں.
((شب براءت کی حقیقت))
<حصہ سوئم>
شب برات کی فضیلت میں جو کچھ قرآن سے پیش کیا جاتا هے،
اسکا تو ھم نے جائزہ لے لیا ھے اور حقیقت واضح ھوگئی هے.
اب ھم وه روایات دیکھتے هیں جو شب برات کے فضائل میں بیان کی جاتی هیں.
ان میں سے کوئی بھی روایت ، احادیث کی سب سے صحیح ترین پہلی دو کتابوں میں نہیں
هے.
پہلی روایت عثمان بن المغیره کی پیش کی جاتی ھے کہ
"رسول اللہ صلی الله عليه و سلم نے فرمایا. شعبان سے شعبان تک موتوں کا فیصلہ
کیا جاتا هے. حتی کہ ایک شخص نکاح کرتا ھے یا اسکی اولاد هوتی هے. حالانکہ اس کا
نام مردوں کی فہرست میں داخل کیا جاتا هے"
(تفسیر قرطبی)
عثمان بن المغیره پہلی بات یہ کہ صحابی هی نہیں هیں بلکہ چھوٹے درجے کے تابعی هیں
اس لیے یہ روایت مرسل ھے اور قرآن کے خلاف هے.
حافظ ابن کثیر یہ روایت نقل کر کے فیصلہ دیتے هیں کہ
"یہ حدیث مرسل ھے اور اس قسم کی روایات قرآن کے مقابلے پر پیش نہیں کی
جاسکتیں"
اسکے علاوہ اس روایت میں ایک راوی عبداللہ بن صالح هے.
اسکے بارے میں محدثین کے بہت سخت اقوال هیں.
تفصیل طوالت کی وجہ سے چھوڑتے هیں.
ایک اور روایت جو واقعہ بقیع کے نام سے اس شب برات کے فضائل میں بیان کی جاتی ھے
اور اتفاق سے یہ واحد روایت ھے جو صحاح ستہ میں سے ترمذی اور ابن ماجہ میں پائی
جاتی هے.
جہاں تک ابن ماجہ کا تعلق ھے تو اسے هند و پاک کے کچھ متاخرین صحاح میں داخل
سمجھتے هیں ورنہ اکثر محدثین و محققین جن میں حافظ ابن حجر، شاہ ولی اللہ، شاہ
عبدالعزیز، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور دیگر اسے صحاح ستہ سے خارج قرار دیتے هیں.
جہاں تک امام ترمذی کا تعلق ھے وه صاحب علم اور فن رجال کے استاد تھے.
امام ترمذی اپنی جامع میں یہ واقعہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح نقل کرتے
هیں کہ
"جب نصف شعبان کی رات ھوئی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بستر
پر نہیں پایا، میں نے آپکا پیچھا کیا تو آپ بقیع میں کھڑے هوئے تھے. کچھ دیر بعد
آپ لوٹے اور فرمایا. اے عائشہ! کیا تو یہ سمجھتی ھے کہ اللہ کا رسول تیرے ساتھ
زیادتی کرے گا. سیدہ عائشہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ، میں یہ سمجھی تھی کہ آپ
اپنی کسی اور زوجہ کے پاس تشریف لے گئے هیں. آپ نے فرمایا اے عائشہ! تجھے معلوم ھے
کہ آج کون سی رات هے، آج نصف شعبان کی رات هے. اس رات میں الله تعالى بنو کلب کی
بهیڑوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا هے"
یہاں تک تو ترمذی کی روایت سب بیان کرتے هیں لیکن اس کے بعد امام ترمذی نے جو
فیصلہ دیا ھے وه "شیر مادر" سمجھ کر هضم کر جاتے هیں.
امام صاحب فرماتے هیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل (امام بخاری) سے سنا وه اس حدیث
کو ضعیف کہتے تھے کہ یہ دو مقام سے منقطع ھے اور منقطع روایت محدثین کے نزدیک
ناقابل قبول هے.
اسی لیے بدرالدين حنفی اور ابن العربی مالکی نے اسے موضوع کہا هے.
اسی لیے حلوے خور مولوی امام صاحب کی پوری بات بیان نہیں کرتے، ورنہ انکی کہانی کی
پوری عمارت زمین بوس هو جائے گی.
ایک بات اور اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو انکی سوره دخان والی بات جهوٹی
ثابت هوتی ھے کہ جو قرآن کئی سال پہلے مکہ میں نازل هوا تھا اگر اسکا تعلق شب برات
سے هوتا تو کیا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اسکا علم نہیں تھا.......؟
لیکن اگر یہ پھر بھی اپنی بات پر ڈٹے هوئے هیں تو یہ معاذاللہ اللہ کے رسول اور
انکی زوجہ پر تبرا ھے کہ
سیده عائشہ صدیقہ قرآن سے اتنی ناعلم تھیں کہ اتنے سال پہلے اس رات کی فضیلت میں
قرآن اترا لیکن انھیں علم هی نہیں.
اور
معاذاللہ نبی صلی الله علیہ و سلم پر الزام آتا ھے کہ آپ اپنے گھر والوں تک کو
قرآن نہیں سمجھا سکے.
یہ ھے تبرے کا طریقہ. لیکن ھمارے بھولے سنی بھائی سمجھتے هی نہیں.
اسی لیے تو اسکا نام شب براءت (شب تبرا) رکھا هے.
((شب براءت کی حقیقت))
<حصہ چہارم>
نصف شعبان کی رات کے حوالے سے ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث کی حیثیت تو آپ کے سامنے
واضح ھوگئی ھے
لیکن
اس سے ملتی جلتی صحیح حدیث سنن نسائی، موطا امام مالک اور دیگر کتب میں موجود ھے
کہ
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک رات اٹھے کپڑے پہنے اور باهر تشریف لے
گئے.............. واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے اهل بقیع کی
جانب بھیجا گیا تھا تاکہ میں انکے لیے دعائے مغفرت کروں"
اور یہ حکم عین قرآن کے مطابق هے.
"اور انکے لیے دعائے رحمت کیجئے، بیشک تمھاری دعا انکے لیے سکون کا باعث
هے"
(سورة براءت)
موطا صفحہ 85 میں ابن الوضاح کہتے هیں کہ یہ واقعہ وفات رسول سے پانچ دن پیش آیا.
آپکی وفات ربیع الاول میں ھوئی تو اس سے نصف شعبان کا تو کوئی تعلق هی نہیں بنا.
اور نا ھی اس میں شعبان اور بنوکلب کی بهیڑوں کے بالوں کا زکر هے.
اس سلسلے کی ایک روایت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب کی جاتی هے کہ
"نبی کریم صلی الله علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، الله تعالى نصف شعبان کی شب
میں آسمان دنیا کی جانب نزول فرما ھوتا ھے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ هر شخص
کی مغفرت فرماتا هے"
یہ روایت کتب ستہ میں هرگز نہیں پائی جاتی بلکہ امام ابن عدی نے اسے
"کامل" میں نقل کر کے اسے منکر قرار دیا هے.
کیونکہ
اس روایت کا سرا قاسم بن محمد سے جا کر ملتا ھے کہ انھوں نے اپنے والد محمد بن
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سنی.
قاسم رحمہ اللہ عالم، فقہی اور پرهیزگار انسان تھے.
36 هجری میں پیدا هوئے. اور انکے والد کا انتقال 37 هجری میں هوا.
کیا ایک سال کی عمر میں انھوں نے یہ روایت اپنے والد سے سن کر یاد کر لی تھی.؟
اور جہاں تک محمد بن ابوبکر کا تعلق هے تو صحیح مسلم، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں
سیدنا جابر بن عبداللہ کا بیان ھے کہ 10 هجری 4 ذالحجہ کو دوران سفر حج ذوالحلیفہ
کے مقام پر ابوبکر کی بیوی أسماء بنت عمیس کے هاں محمد نامی لڑکا پیدا هوا.
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات 22 جمادی الثانی 13 هجری کو هوئی تو اس
وقت محمد کی عمر 2 سال 6 مہینے اور 18 دن تهی.
اس عمر میں احادیث سننا اور یاد رکھنا خلاف عقل هے.
اور یہ محمد بھی کون.؟
جو قاتلان عثمان میں شامل هو، جس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی داڑھی مبارک پر
ھاتھ ڈالا تھا.
ایسی تاریخ کی بدنام هستی کی روایت کیسے قبول کی جاسکتی هے.؟
اس سلسلے میں ایک اور روایت جو زبان زدعام هے. اسکے الفاظ هیں.
"رجب الله کا مہینہ، شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ هے"
اسکی پوری سند میں کوئی راوی ایسا نہیں کہ جس کا عالم دنیا میں وجود هو.
ابن جوزی، ابن قیم، سیوطی، سخاوی، ابن عراق الکنانی، حافظ عراقی، مقدسی، جزری اور
طاهر پٹنی لکھتے هیں کی اس طرح کی جتنی روایات هیں سب موضوع هیں.
شیعوں کی معتبر کتاب "تحفتہ العوام" میں اس شب کی بے پناہ فضیلتیں درج
هیں کہ
"اس شب حق تعالیٰ کی جانب سے ندا آتی ھے کہ ھے کوئی استغفار کرنے والا کہ میں
اسے بخشوں، ھے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ میں اسکی روزی کشادہ کروں"
اور یہ بھی ھے کہ
"منجملہ اعمال اس شب کے زیارت امام حسین کی ھے کہ پیغمبران و ملائکہ اس شب
خدا سے رخصت لے کر آنحضرت (حسین) کی زیارت کے لیے آتے هیں"
یعنی اس شب کی تقدیس کا اندازہ کیجئے کہ سب پیغمبر اور ملائکہ کربلا جاتے هیں اور
اس سے زیادہ معیوب بات کیا ھوئی کہ نواسہ نانا کی زیارت کو خود نہیں جاتا بلکہ
نانا صلی الله علیہ و سلم کو خود چل کر کربلا جانا پڑتا هے.
دراصل اسکا مقصد یہ ھے کہ کربلا کی روضہ رسول سے اور سیدنا حسین کی محمد الرسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر فضیلت ثابت کی جائے.
اس طرح انھوں نے اس عبادت کی آڑ میں تبرا یعنی براءت سے کام لیا هے.سمجھ آ رها ھے شب براءت کا مطلب. ..........؟؟؟؟؟؟؟؟
No comments:
Post a Comment